إِنْ هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِينَ
نہیں ہے یہ (زندگی) مگر ہماری اس دنیا کی زندگی، ہم (یہیں) مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور ہم ہرگز اٹھائے جانے والے نہیں۔
[٤١] آخرت کا انکارجہالت اور ہٹ دھرمی پرمبنی ہے :۔ آخرت سے انکار کرنے والوں کے پاس سب سے بڑی دلیل یہ ہوتی ہے کہ چونکہ کوئی بھی مرا ہوا انسان آج تک دوبارہ زندہ ہو کر واپس نہیں آیا۔ لہٰذا ہم کیسے مان لیں کہ مرنے اور مر کر مٹی میں مل جانے کے بعد دوبارہ اٹھائے جائیں گے؟ گویا ان کے انکار کی اصل بنیاد ان کا اپنا تجربہ یا مشاہدہ ہوتا ہے۔ قوم عاد مشرکین مکہ کی طرح اللہ کی ہستی کے قائل تھے حالانکہ اللہ کی ہستی بھی کسی تجربہ اور مشاہدہ میں نہیں آتی۔ اور اللہ کی ہستی کے قائل ہونے کی وجہ بھی یہ نہیں ہوتی کہ وہ کسی پیغمبر کی تعلیم سے متاثر ہو کر اللہ پر ایمان بالغیب لاتے ہیں۔ بلکہ اس لئے کہ فلاسفروں اور حکماء نے اللہ کی ہستی کو علت العلل (First Cause) کے طور پر تسلیم کیا ہے یعنی جس طرح ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہر چیز کے لئے صانع یا اس کے بنانے والے کا ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح اس کارخانہ کائنات کا بنانے والا ہونا بھی ضروری ہے۔ بالفاظ دیگر اللہ کی ہستی کو عقلی دلیل کی بنا پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ عقلی دلیل کی بنا پر بھی ایسی اشیاء کو تسلیم کرنا ضروری ہے جو مشاہدہ اور تجربہ میں نہ آئی ہوں یا نہ آسکتی ہوں۔ اور دوبارہ زندگی کے قیام پر چونکہ بہت سے عقلی دلائل موجود ہیں۔ جن کا ذکر قرآن کریم میں بھی بے شمار مقامات پر ہوا ہے۔ لہٰذا جو لوگ آخرت اور دوبارہ زندگی کا انکار محض اس بنا پر کرتے ہیں کہ کوئی آدمی مر کر واپس نہیں آیا۔ یا انسان کا جسم مٹی میں مل کر مٹی ہوجاتا ہے تو پھر کیسے زندہ ہوسکتا ہے، تو یہ عقلی دلائل کا انکار اور محض جہالت ہے۔