إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ
مگر اپنی بیویوں، یا ان (عورتوں) پر جن کے مالک ان کے دائیں ہاتھ بنے ہیں تو بلاشبہ وہ ملامت کیے ہوئے نہیں ہیں۔
[٦]ترک نکاح اور رہبانیت کا رد:۔ یعنی مسلمانوں کے لئے اپنے شہوانی جذبات اور خواہشات کی تکمیل کی دو ہی صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ وہ اپنی خواہش اپنی بیویوں سے پوری کریں اور دوسری یہ کہ اپنی مملوک کنیزوں سے پوری کرسکتے ہیں۔ مملوک لونڈیوں کے لئے نکاح کی شرط نہیں اور اس سے تمتع کے جواز کی بنیاد نکاح نہیں بلکہ ملک ہے۔ اس آیت سے مزید دو امور کا پتہ چلتا ہے۔ ایک یہ کہ راہب سنیاسی یا بعض صوفی قسم کے لوگ شہوانی خواہش کی تکمیل کو برا سمجھتے ہیں۔ حتیٰ کہ نکاح کو ان کی خود ساختہ ولایت کے معیار کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ اس لئے کہ نکاح کے بعد انسان خانہ داری اور اولاد کے جھنجھٹوں میں پڑجاتا ہے۔ اور یہ چیز رہبانیت کی ریاضت کے حصول میں آڑے آتی ہے۔ اس آیت میں ان لوگوں کے نظریہ کا پورا پورا رد موجود ہے۔ نیز دور نبوی میں صحابہ کرام میں بھی کچھ رہبانیت کا رحجان چل نکلا تھا۔ چنانچہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تین آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیویوں کے گھر آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کے متعلق پوچھنے لگے۔ جب انھیں بتلایا گیا تو اسے انہوں نے کم سمجھا اور کہنے لگے کہ کہاں ہم اور ہاں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جن کے پہلے اور پچھلے سب گناہ معاف کئے جاچکے ہیں۔ پھر ان میں سے ایک نے کہا: میں ہمیشہ ساری رات نماز میں گزارا کروں گا‘‘ دوسرے نے کہا : ’’میں ہمیشہ روزہ رکھا کروں گا اور تیسرے نے کہا میں ہمیشہ عورتوں سے کنارہ کش رہوں گا اور کبھی نکاح نہ کروں گا‘‘ اتنے میں آپ تشریف لے آئے اور ان لوگوں سے پوچھا : ’’کیا تم ہی وہ لوگ ہو جنہوں نے ایسی اور ایسی باتیں کی ہیں؟ اللہ کی قسم! میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور پرہیزگار ہوں۔ اس کے باوجود میں روزہ رکھتا بھی ہوں اور چھوڑتا بھی ہوں۔ رات کو نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتاہوں۔ تو جو کوئی میری سنت کو ناپسند کرے اس کا مجھ سے کوئی واسطہ نہیں‘‘ (بخاری۔ کتاب النکاح۔ باب الترغیب فی النکاح) عورت کا اپنےغلام سے تمتع کی ممانعت:۔ اور دوسری یہ بات کہ مرد کے لئے تو اس کی مملوکہ کنیز سے تمتع جائز ہے۔ لیکن عورت اپنے مملوک غلام سے تمتع نہیں کرسکتی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ایک عورت نے اپنے غلام سے تمتع کرلیا۔ پھر دلیل میں یہ آیت پیش کی۔ آپ نے صحابہ کی مجلس شوریٰ میں یہ معاملہ پیش کیا تو سب نے بالاتفاق کہا کہ تَاَوَّلْتُ کِتَاب اللّٰہِ تَعَالٰی خَیْرُ تَاوِیْلِہ (یعنی اس عورت نے اللہ کی کتاب کا غلط مفہوم اخذ کیا ہے) اور عورت کے لئے اس چیز کو حرام کرنے کی حکمت یہ ہے کہ غلام اپنی مالکہ کی خواہش شہوانی تو پوری کرسکتا ہے۔ لیکن اس کا قوام نہیں بن سکتا۔ لہٰذا ایسی عورت کے لئے بہتر یہی ہے کہ اگر وہ چاہے تو اسے آزاد کرکے اس سے نکاح کرلے۔