سورة الحج - آیت 78

وَجَاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِ ۚ هُوَ اجْتَبَاكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ ۚ مِّلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ ۚ هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِن قَبْلُ وَفِي هَٰذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ ۚ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلَاكُمْ ۖ فَنِعْمَ الْمَوْلَىٰ وَنِعْمَ النَّصِيرُ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور اللہ کے بارے میں جہاد کرو جیسا اس کے جہاد کا حق ہے۔ اسی نے تمھیں چنا ہے اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی، اپنے باپ ابراہیم کی ملت کے مطابق۔ اسی نے تمھارا نام مسلمین رکھا، اس سے پہلے اور اس (کتاب) میں بھی، تاکہ رسول تم پر شہادت دینے والابنے اور تم لوگوں پر شہادت دینے والے بنو۔ سو نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور اللہ کو مضبوطی سے پکڑو، وہی تمھارا مالک ہے، سو اچھا مالک ہے اور اچھا مددگار ہے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٠٨] جہاد کی اقسام :۔ جہاد کرنے کا حق یہ ہے کہ دامے، درمے، سخنے ہر طرح سے جہاد کیا جائے۔ جہاد دراصل ہر اس بھرپور کوشش کا نام ہے جو امت دین کے لئے اور اس کی راہ میں رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے کی جائے۔ اس کا پہلا درجہ یہ ہے کہ انسان اپنے نفس سے جہاد کرے اور اسے مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کی مرضی اور اس کے دین کے تابع بنا دے۔ اس کا دوسرا درجہ اپنے اہل و عیال اور گھر بار کو پوری کوشش کے ساتھ اس راہ پر ڈالنا ہے۔ پھر اس کے بعد رشتہ داروں کی باری آتی ہے پھر عام لوگوں کی۔ جہاد کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جہاں موقع اور ضرورت ہو انسان زبان سے لوگوں کو اس راہ کی طرف دعوت دے اسلام کی تبلیغ اشاعت کرے۔ اور جہاں موقع اور ضرورت ہو تو صاحب قلم، قلم سے جہاد کریں۔ اسلام کی تعلیم کی اشاعت کرکے لوگوں میں پھیلائیں۔ اور اسلام کے مخالفوں کے اعتراضات کے مدلل جواب دیں۔ اور اس کا آخری درجہ یہ ہے کہ بوقت ضرورت جہاد بالسیف سے بھی دریغ نہ کریں۔ خواہ اس میں جان اور مال کی قربانی دینی پڑے۔ اور اس کا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کے کلمہ کو سربلند کرنا ہو۔ اور یہ ساری اور ہر قسم کی کوششیں جہاد ہی کے ضمن میں آتی ہیں۔ اور ایک مومن کے ایمان کا تقاضا ہیں جس قدر کسی کا ایمان مضبوط ہوگا اس قدر وہ جہاد میں سرگرم عمل رہے گا۔ اس کا ایمان خود اسے ایسی کوششوں کی ترغیب دیتا رہے گا۔ [١٠٩] دین میں تنگی نہیں کمزور اور مجبورلوگوں کا لحاظ:۔ یعنی اسلام نے مسلمانوں پر جو فرائض عائد کئے ہیں ان میں ہر قسم کے لوگوں کی مجبوریوں کو بھی ملحوظ رکھا ہے اور سختی نہیں کی۔ مثلاً بوڑھوں، بچوں، عورتوں، اندھوں اور معذوروں کو جہاد بالسیف سے سبکدوش کیا گیا ہے۔ مسافروں کی نماز میں تخفیف کردی گئی ہے۔ مریضوں کو نماز بیٹھ کر اور زیادہ بیماری میں لیٹ کر، حتیٰ کہ اشارہ سے پڑھنے کی رخصت دی گئی ہے۔ پانی نہ ملنے پر تیمم کی اجازت ہے۔ اور ایسی مثالیں بے شمار ہیں اور اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ سابقہ شریعتوں میں جو سخت احکام تھے انھیں دور کرکے آسان کردیا گیا ہے اور اس کی مثالیں کسی دوسرے مقام پر گزر چکی ہیں۔ اور اس کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ رسم و رواج کی پابندیوں اور بعض بزرگان دین کی خود ساختہ عائد کردہ پابندیوں کو ساقط الاعتبار قرار دیا گیا ہے اور اس کی کچھ تفصیل سورۃ اعراف کی آیت نمبر ١٥٧ کے تحت گزر چکی ہے اور اس سے متعلق احادیث سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ١٥٨ کے تحت درج کردی گئی ہیں۔ [١١٠]دین کے معاملہ میں سیدنا ابراہیم کا خصوصی ذکر کیوں ؟ تمام انبیاء و رسل کا دین ایک ہی رہا ہے اور یہاں بالخصوص جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین کا نام لیا، دین موسوی یا عیسوی وغیرہ کا نام نہیں لیا، تو اس کی چند وجوہ ہیں۔ جو یہ ہیں : ١۔ آپ کو یہودی، عیسائی، مسلمان حتیٰ کہ صابی بھی اپنا پیشوا تسلیم کرتے ہیں اور آپ سب کے ہاں یکساں محترم ہیں۔ ٢۔ اہل عرب میں سے اکثر قبائل آپ کی ہی اولاد تھے اور آپ ان کے جداعلیٰ ہیں۔ ٣۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام مسلمانوں کے روحانی باپ ہیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جدامجد تھے۔ لہٰذا حضرت ابراہیم علیہ السلام تمام مسلمانوں کے باپ ہوئے۔ واضح رہے کہ دین کے بجائے ملت کا لفظ آیا ہے۔ اور یہ دونوں مترادف الفاظ ہیں۔ اور دونوں میں فرق یہ ہے کہ دین صرف ان احکام و فرامین کا نام ہے جو کتاب و سنت یا کسی الہامی کتاب میں مذکور ہوتے ہیں۔ انہی احکام و فرامین کو جب عملی شکل دے کر رائج کردیا جائے تو ایسے نظام کا نام ملت ہے۔ یعنی دین کی عملی شکل جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پیش فرمائی تھی وہی اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے لہٰذا ہمیں انہی کی ملت کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے۔ [١١١] مسلم کے لغوی معنی ہیں اللہ کے احکام کے سامنے سرتسلیم ختم کردینے والا۔ اس لحاظ سے ہر نبی پر ایمان لانے والی قوم مسلم ہی تھی۔ ابراہیمی یا نوحی، یا موسوی، یا عیسوی، وغیرہ ناموں سے وہ لوگ نہیں پکارے جاتے تھے۔ اور نہ ہی اللہ تعالیٰ نے ان کے یہ نام رکھے تھے۔ ان کے یہ نام ان کے خود ساختہ تھے یا دوسروں کے تجویز کردہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا نام بھی مسلمان ہی رکھا تھا اور تمہارا نام بھی مسلمان ہی ہے۔ [١١٢] اس آیت کی تشریح کے لئے دیکھئے سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ١٤ کا حاشیہ [١١٣] یعنی تمہیں ہر قسم کے احکام و قوانین خواہ یہ درون خانہ سے تعلق رکھتے ہوں یا تمہاری معیشت و معاش سے یا معاشرت و تمدن سے یا داخلی و خارجی پالیسی سے اللہ کے دین سے لینے چاہئیں اور انہی پر پوری طرح عمل پیرا ہونا چاہئے۔ لہٰذا تم اپنے نام کی لاج رکھو اور جس ہدایت عامہ کے لئے تمہیں پیدا کیا گیا ہے اس کی تکمیل کے لئے سب سے پہلے اپنے آپ کو نمونہ بناؤ۔ بدنی اور مالی عبادات میں بھی کوتاہی نہ ہونے پائے۔ ہر کام میں شریعت سے روشنی حاصل کرو اور جادہ حق سے ادھر ادھر نہ جاؤ۔ اس کے فضل اور رحمت پر اعتماد رکھو اور تمام کمزور سہارے چھوڑ دو۔ صرف اللہ کو ہی اپنا مالک اور مولیٰ سمجھو۔ اس سے بہتر مالک اور مددگار تمہیں اور کون مل سکتا ہے؟