يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ ۗ وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ
وہ جانتا ہے جو ان کے سامنے ہے اور جو ان کے پیچھے ہے اور اللہ ہی کی طرف سب کام لوٹائے جاتے ہیں۔
[١٠٥]سفارش پر پابندیاں :۔ ﴿ یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ ﴾ یہ جملہ قرآن کریم میں چار مقامات سورۃ بقرۃ آیت ٢٥٥ (آیۃ الکرسی) سورۃ طہ، آیت نمبر ١١٠، سورۃ انبیاء، آیت نمبر ٢٨، اور یہاں سورۃ حج کی آیت نمبر ٧٦ میں استعمال ہوا ہے۔ اور ہر مقام پر اس جملہ سے پہلے یا آخر میں سفارش اور معبودان باطل کا ذکر ہے۔ اس جملہ میں سفارش پر پابندیوں کی وجہ بیان کی گئی ہے۔ سفارش پر پابندیاں یہ ہیں۔ (١) کوئی شخص اللہ کے اذن کے بغیر سفارش نہ کرسکے گا (٢) سفارش اسی کے حق میں کی جاسکے گی جس کے حق میں اللہ چاہے گا اور (٣) صرف اس جرم یا خطا کے لئے جاسکے گی جس اللہ کو معاف کرنا منظور ہوگا۔ اب سب پابندیوں کو ملانے سے منطقی نتیجہ یہی حاصل ہوتا ہے کہ سفارش پر ہرگز تکیہ نہ کر بیٹھنا چاہئے۔ اور اس جملہ میں سفارش پر تکیہ نہ کرنے کی وجہ یہ بیان کی جارہی ہے کہ مثلاً ایک بااثر شخص کسی افسر سے مل کر کہتا ہے کہ حضور! آپ کا فلاں ملازم جس جرم میں ماخوذ ہے اسے معاف کردیں۔ یہ میرا خاص آدمی ہے۔ اور افسر اسے یہ جواب دیتا ہے کہ تمہاری نظر تو صرف اس کے حالیہ جرم پر ہے۔ لیکن اس کا سابقہ ریکارڈ بھی بہت گندا ہے۔ لہٰذا اب مجھے اس کا موجودہ جرم بھی معاف کرنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ جس پر سفارش کرنے والا لاجواب اور بے بس ہوجاتا ہے۔ بالکل یہی صورت حال اللہ کے حضور سفارش کی ہے۔ اللہ تو ہر انسان کے پورے ریکارڈ سے واقف ہے اور یہی اس جملہ کا مطلب ہے لیکن سفارش کرنے والے کو اس کی پوری ہسٹری شیٹ کا علم ہو ہی نہیں سکتا جس کی وہ سفارش کرنا چاہتا ہے اسی لئے سفارش پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلے ہی پابندیاں عائد کردی گئی ہیں۔ [١٠٦] اگرچہ یہ جملہ عام ہے اور تمام کاموں کا انجام اللہ ہی کے سپرد ہے۔ مگر یہاں ربط مضمون کے لحاظ سے اس کا مطلب یہی ہوسکتا ہے کہ جن معبودوں یا بزرگوں کی سفارش پر تکیہ کیا جاتا ہے یا لوگوں کو جھوٹے دعوے دیئے جاتے ہیں یا لوگ خود ہی خود فریبی میں مبتلا ہوچکے ہیں ان کے یہ محض توہمات ہیں جو لغو اور باطل ہیں۔ ہر شخص کا انجام وہی کچھ ہوگا جو اللہ کو منظور ہوگا۔