مَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ
انھوں نے اللہ کی قدر نہیں کی جو اس کی قدر کا حق تھا۔ بے شک اللہ یقیناً بہت قوت والا ہے، سب پر غالب ہے۔
[١٠٣] کائنات کی وسعت اور اس پر کنٹرول سے اللہ کی ہستی اور قدرت پردلیل :۔ یعنی انہوں نے اللہ تعالیٰ کی قدرت پر کبھی غور ہی نہیں کیا۔ جو اس پوری کائنات کو اور خود ان کو بھی عدم سے وجود میں لایا ہے۔ اور انھیں زندگی بخشی ہے اگر وہ اللہ تعالیٰ کے کسی بھی کارنامے پر غور کرتے تو کبھی اس کے اختیار و تصرف میں کمزور اور بے بس قسم کی مخلوق کو شریک بنانے کی حماقت نہ کرتے۔ مثلاً: کائنات کی وسعت کا یہ حال ہے کہ موجودہ تحقیقات کی رو سے سورج کے گرد نو سیارے گردش کر رہے ہیں جن میں تیسرے نمبر پر ہماری زمین ہے اور اس کا سورج سے فاصلہ ٩ کروڑ ٣٠ لاکھ میل ہے۔ آخری نواں سیارہ پلوٹو ہے جس کا سورج سے ٣ ارب ٦٨ کروڑ میل فاصلہ ہے جسامت کے لحاظ سے بھی ہماری زمین دوسرے سیاروں کی نسبت بالکل حقیر ہے۔ ہمارے اس نظام شمسی میں سورج ایک ستارہ یا ثابت ہے۔ کائنات میں ایسے ہزاروں ستارے یا ثابث مشاہدہ کئے جاچکے ہیں اور یہ ستارے یا سورج جسامت کے لحاظ سے ہمارے سورج سے بہت بڑے ہیں۔ ہمارے نظام شمسی سے بہت دور تقریباً ٤ کھرب کلومیٹر کے فاصلے پر ایک سورج موجود ہے جو ہمیں محض روشنی کا ایک چھوٹا سا نقطہ معلوم ہوتا ہے اس کا نام الف قنطورس (Alfa Centauris) ہے۔ ایسے ہی دوسرے سورج اس سے بھی دور ہیں اور خلا میں ہر طرف ایک دوسرے سے الگ الگ بکھرے پڑے ہیں۔ رات کے وقت وہ آسمان پر روشنی کے ننھے منے نقطوں کی شکل میں نظر آتے ہیں۔ یہ سب ستارے دراصل بہت بڑے اجسام ہیں اور ہمارے سورج کی طرح یہ بھی خود روشن ہیں۔ جسامت کے لحاظ سے سیاروں اور ستاروں کو چار قسموں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلی قسم کو سفید بونے کہا جاتا ہے ان کی اوسط جسامت مشتری کے برابر سمجھی گئی ہے اور مشتری کی جسامت نظام شمسی کے باقی آٹھ سیاروں (جن میں ہماری زمین بھی شامل ہے) کے برابر ہے۔ ہمارا سورج دوسری قسم میں آتا ہے اور اس کی جسامت ہماری زمین سے ٣ لاکھ ٣٧ ہزار گنا زیادہ ہے گویا ہمارا اتنا بڑا سورج بھی بڑے ستاروں میں شامل نہیں ہے۔ تیسری قسم کے ستاروں کو دیو (Gaints) اور چوتھی قسم کے ستاروں کو شاہ دیو (Super giants) کہا جاتا ہے۔ ایسے ستاروں کے مقابلہ میں ہمارا سورج ایسے ہی ہے جیسے سورج کے مقابلہ میں ہماری زمین ہے۔ ایسے ہی ایک ستارے کا نام قلب عقرب (Antarres) ہے۔ اگر اسے اٹھا کر نظام شمسی میں رکھا جائے تو سورج سے لے کر مریخ تک تمام علاقہ اس میں پوری طرح سما جائے گا۔ جبکہ مریخ کا سورج سے فاصلہ ١٤ کروڑ ١٥ لاکھ میل ہے۔ گویا قلب عقرب کا قطر ٢٨ کروڑ ٣٠ لاکھ میل کے لگ بھگ ہے۔ مزید برآں کائنات میں لاتعداد مجمع النجوم اور کہکشائیں ہیئت دانوں کو ورطہ حیرت میں ڈال کر ان کے علم کو ہر آن چیلنج کر رہی ہیں پھر اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جوں جوں ہیئت دان مزید طاقتور اور جدید قسم کی دوربینیں استعمال کر رہے ہیں، توں توں اس بات کا بھی انکشاف ہو رہا ہے کہ کائنات میں مزید وسعت پیدا ہورہی ہے۔ سیاروں کے درمیانی فاصلے بھی بڑھ رہے ہیں اور نئے نئے اجرام بھی مشاہدہ میں آرہے ہیں۔ اب اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ہماری زمین سورج کے گرد چھیاسٹھ ہزار چھ سو میل فی گھنٹہ کی برق رفتاری سے گردش کر رہی ہے۔ اسی طرح کائنات میں تمام سیارے کم و بیش اسی برق رفتاری سے محو گردش ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے انھیں اسی طرح جکڑا ہوا ہے۔ کہ نہ وہ آپس میں ٹکراتے ہیں نہ ان کی چال میں فرق آتا ہے اور نہ ہی اپنے مدار سے ایک انچ بھی ادھرادھر ہوسکتے ہیں۔ اور جوں جوں انسان اللہ تعالیٰ کی ان قدرتوں میں غور کرتا ہے تو اس کی عظمت و جلال کا سکہ اس کے دل پر نقش ہوتا جاتا ہے۔ اب ایک طرف تو اس قدر عظمت و جلال اور قوت و قدرت والی اللہ تعالیٰ کی ہستی ہے اور دوسری طرف اس کے ساتھ ایسے معبودوں اور حاجت رواؤں کو شریک کیا جارہا ہے۔ جو ایک مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے بلکہ ایسے بے بس ہیں کہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے جائے تو اسے مکھی سے چھڑانے کی قدرت بھی نہیں رکھتے۔ غور فرمائیے کیا ان دونوں کی قدرت میں کوئی نسبت قائم کی جاسکتی ہے؟ اور حقیقت یہ ہے کہ جو دوسروں کو اللہ کے شریک بناتے ہیں تو اس کی وجہ محض یہ ہے کہ انہوں نے کسی بھی معاملہ میں اللہ تعالیٰ کی قدرتوں پر کبھی غور نہیں کیا۔ نہ ہی اللہ تعالیٰ کی قدرت کو پہچاننے کی کبھی کوشش کی ہے ورنہ وہ کبھی ایسی حماقت نہ کرتے۔