سورة الحج - آیت 65

أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ سَخَّرَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ وَالْفُلْكَ تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِأَمْرِهِ وَيُمْسِكُ السَّمَاءَ أَن تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ إِلَّا بِإِذْنِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

کیا تو نے نہیں دیکھا کہ بے شک اللہ نے تمھاری خاطر مسخر کردیا ہے جو کچھ زمین میں ہے اور ان کشتیوں کو بھی جو سمندر میں اس کے حکم سے چلتی ہیں اور وہ آسمان کو تھامے رکھتا ہے کہ زمین پر نہ گر پڑے مگر اس کے اذن سے۔ بے شک اللہ یقیناً لوگوں پر بہت شفقت کرنے والا، نہایت رحم والا ہے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٩٤] انسان پر اللہ تعالیٰ کے چار بڑے احسانات :۔ اس آیت اور اس سے پہلی آیات میں دراصل ایسی باتوں کا ذکر کیا گیا ہے جن کے بعیر انسان کا اس دنیا میں زندہ رہنا اور باقی رہنا مشکل تھا۔ اللہ کا سب سے پہلا احسان توبہ ہے کہ زمین سبزہ اگاتی ہے اور اسی سبزہ پر انسان کیا دوسرے جانوروں کی زندگی کا بھی اسی پر انحصار ہے۔ اگر زمین میں پانی کی آمیزش سے روئیدگی کی قوت پیدا نہ ہوتی تو کسی بھی جاندار کا اس زمین پر زندہ رہنا مشکل تھا اللہ کا دوسرا احسان انسان پر یہ ہے کہ اس نے زمین کی ہر چیز کو اس کے لئے مسخر کردیا ہے۔ ورنہ زمین پر بسنے والے درندے اسے چیر پھاڑ کر کھا جاتے اور اس کی ہستی کا خاتمہ کرسکتے تھے۔ پھر کئی ایسے عظیم الجثہ جانور بھی ہیں کہ انسان محض ان کا ایک نوالہ ہی بنتا ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اتنی عقل دی کہ وہ زمین کی ہر بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی چیز کو اپنے کام میں لا رہا ہے اور دوسری اشیاء کو اللہ تعالیٰ نے ایسے طبعی قوانین کا پابند بنا دیا ہے کہ انسان انھیں معلوم کرکے ہر چیز سے گونا گوں فائدے حاصل کر رہا ہے۔ انسان ان اشیاء میں جیسی بھی قطع و برید یا تصرف کرے، کوئی چیز اس کے آگے دم نہیں مار سکتی، اسی احسان کا ایک پہلو یہ ہے کہ انسان سمندری سفر کے قابل ہوگیا ہے۔ وہ سمندر جو زمین کے تین چوتھائی حصہ پر پھیلا ہوا ہے۔ جاں کوئی نشان راہ بھی نہیں ہوتا نہ ہی سمت معلوم ہوسکتی ہے اور اس کی تلاطم خیز موجیں انسان جیسی کمزور مخلوق کو آن کی آن میں فنا کرکے میلوں گہرائی تک پہنچا سکتی ہیں۔ جہاں سے کبھی اس کا سراغ تک نہ مل سکے۔ اللہ تعالیٰ نے سمندر کو طبعی قوانین کا پابند بناکر اسے بھی انسان کے تابع کردیا ہے۔ اور تیسرا احسان اللہ کا یہ ہے کہ فضائے بسیط میں لاکھوں ہمہ وقت گردش میں مصروف سیارے اپنے اپنے مدار پر چلنے کے لئے طبعی قوانین کے اس قدر پابند اور ان میں جکڑے ہوئے ہیں کہ ان میں سے کوئی بھی زمین پر گر کر زمین کو پاش پاش اور انسان کو صفحہ ہستی سے مٹا نہیں سکتا۔ یہ سب اللہ کے اذن سے ہی جکڑے ہوئے ہیں۔ پھر یہ اللہ کا اذن ہی ہوگا کہ ایک وقت یہ اجرام فلکی آپس میں ٹکرا جائیں گے اور قیامت بپا ہوجائے گی۔ اور یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ ہر آفت سے محفوظ رکھنا چاہتا ہے۔