أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَتُصْبِحُ الْأَرْضُ مُخْضَرَّةً ۗ إِنَّ اللَّهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ
کیا تو نے نہیں دیکھا کہ بے شک اللہ نے آسمان سے کچھ پانی اتارا تو زمین سر سبز ہوجاتی ہے۔ بے شک اللہ نہایت باریک بین، ہر چیز سے باخبر ہے۔
[٩٢] لطیف کا لغوی مفہو م :۔ یہاں لطیف کا لفظ کا استعمال ہوا ہے اس کے مادہ ل ط ف میں بنیادی طور پر دو باتیں پائی جاتی ہیں (١) دقت نظر اور (٢) نرمی( المقائیس اللغۃ) اور لطیف کے معنوں میں کبھی تو ایک ہی معنی پایا جاتا ہے۔ جیسے اس آیت میں دقیقہ رس (یا ایک ہی معاملہ کی چھوٹی چھوٹی جزئیات پر تک نظر رکھنے والا) کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اور کبھی یہ بیک وقت دونوں معنوں میں استعمال ہوتا ہے کہ تمام مخلوق کی چھوٹی سے چھوٹی ضروریات اور تکلیفات کا علم رکھنا پھر ان کا ازالہ بھی کرنا۔ اس صورت میں لطیف کا ترجمہ مہربان کرلیا جاتا ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی قدرت تصرف کی ایک اور دلیل پیش کی گئی ہے۔ یعنی پانی اور خشک مٹی کے اجزاء باہم ملتے ہیں تو زمین کے اجزا پھول جاتے ہیں اور ان میں روئیدگی کی قوت پیدا ہوجاتی ہے۔ اب جتنے بیج اس خشک زمین میں دبے پڑے تھے یا گھاس پھوس کی جڑیں خشک ہو کر زمین میں مل گئی تھیں ان میں جان پڑجاتی ہے اور اس خشک اور مردہ بیج میں اتنی قوت پیدا ہوجاتی ہے کہ اس کی نرم و نازک کونپل زمین کی سخت سطح کو چیر پھاڑ کر زمین سے باہر نکل آتی ہے۔ پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ جب وہ سبزہ زار بن کر لہلانے لگتی ہے اور اس سارے عمل کے دوران اللہ تعالیٰ کا لطف یا دقت نظر ہی وہ چیز ہوتی ہے جس کی بنا پر ایسے مثبت نتائج برآمد ہوتے ہیں۔