وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّىٰ أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ فَيَنسَخُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّهُ آيَاتِهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
اور ہم نے تجھ سے پہلے نہ کوئی رسول بھیجا اور نہ کوئی نبی مگر جب اس نے کوئی تمنا کی شیطان نے اس کی تمنا میں (خلل) ڈالا تو اللہ اس (خلل) کو جو شیطان ڈالتا ہے، مٹا دیتا ہے، پھر اللہ اپنی آیات کو پختہ کردیتا ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔
[٨٠]رسول اورنبی کا فرق:۔ اس جملہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اور نبی دو الگ الگ شخصتیں ہوتی ہیں۔ نبی عام ہے اور رسول خاص بالفاظ دیگر ہر رسول نبی تو ہوتا ہے جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق فرمایا: ﴿ وَکَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا ﴾ (۵۱:۱۹) یعنی موسیٰ علیہ السلام رسول بھی تھے اور نبی بھی۔ لیکن ہر نبی رسول نہیں ہوتا۔ نبی اور رسول کا فرق پہلے سورۃ مائدہ کی آیت ٦٧ کے تحت واضح کیا جاچکا ہے۔ [٨١] تمنی کے معنی تمنا یا آرزو کرنا بھی لغوی لحاظ سے درست ہیں اور تلاوت کرنا بھی۔ ترجمہ میں پہلے معنی کو اختیار کیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ نبی یا رسول جب کوئی آرزو کرتا ہے (اور نبی یا رسول کی بڑی سے بڑی خواہش یہی ہوتی ہے کہ لوگ اس کی دعوت کو قبول کرلیں اور اس دعوت کو فروغ اور قبول عام حاصل ہو) تو شیطان اس کی خواہش کی تکمیل میں کئی طرح سے رکاوٹیں کھڑی کردیتا ہے۔ اور ایسا وسوسہ بعض دفعہ تو شیطان نبی اور اس کے پیروکاروں کے دلوں میں ڈالتا ہے۔ جیسے کفار کے کسی حسی معجزہ کے مطالبہ پر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کے دل میں یہ خیال آنے لگا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ کوئی ایسا معجزہ دکھلا دے تو اس سے کئی فائدے حاصل ہوسکتے ہیں یا مثلاً رؤسائے قریش نے آپ سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ اگر آپ ان ناتواں اور حقیر لوگوں (یعنی کمزور مسلمانوں) کو اپنی مجلس سے کسی وقت اٹھا دیں تو ہم آپ کے پاس بیٹھ کر آپ کی دعوت غور سے سننے کو تیار ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کی عدم مخالفت اور اسلام کے غلبہ کی خاطر کافروں کے اس مطالبہ پر غور کرنے کے لئے تیار بھی ہوگئے تھے تو ایسے موقع پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بروقت تنبیہ ہوجاتی تھی اور اللہ تعالیٰ ایسی آیات نازل فرما دیتا جو خود اسے منظور ہوتا تھا اور اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ شیطان نبی یا رسول کی خواہش کی تکمیل کی راہ میں دوسرے لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالنا شروع کردیتا ہے۔ جو اللہ کی آیات کی تکذیب کرتے، اسلام کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتے اور اس کے خلاف سازشیں کرنے لگتے ہیں اور یہ لوگ دو ہی قسم کے ہوسکتے ہیں ایک منافقین اور دوسرے وہ لوگ جن کے دل قبول حق کے سلسلہ میں پتھر کی طرح سخت ہوچکے ہوں۔ لیکن اللہ تعالیٰ بالآخر ایسے لوگوں کی تمام تر سازشوں اور کوششوں کو ناکام بنا دیتا ہے۔ اور جس مقصد کی تکمیل کے لئے وہ کسی نبی یا رسول کو مبعوث فرماتا ہے اسے پختہ سے پختہ تر بنا دیتا ہے۔ کسی نبی یا رسول کی آرزو میں شیطانی وسوسہ ؟اور اگر تمنی کا معنی تلاوت کرنا سمجھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ نبی یا رسول کوئی آیت تلاوت کرتا ہے۔ تو اس کا صحیح مفہوم سمجھنے کے سلسلہ میں شیطان لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈال کر انھیں شکوک و شبہات میں مبتلا کردیتا ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے جب یہ آیت نازل فرمائی کہ﴿حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ ﴾تو بعض لوگوں نے یہ اعتراض جڑ دیا کہ یہ کیا بات ہوئی کہ اللہ کا مارا ہوا جانور تو حرام ہو اور انسان کا مارا ہوا (ذبح کیا ہو) حلال؟ یہ خالصتاً شیطانی وسوسہ تھا۔ اسی طرح جب یہ آیت نازل ہوئی ﴿اِنَّکُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ حَصَبُ جَہَنَّمَ ﴾(یعنی تم بھی اور اللہ کے سوا جنہیں تم پوجتے ہو سب جہنم کا ایندھن بنیں گے) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھ کر سنائی تو کافروں نے فوراً یہ اعتراض جڑ دیا کہ پرستش تو حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عزیر علیہ السلام اور فرشتوں کی بھی کی جاتی رہی ہے تو کیا یہ ہستیاں بھی جہنم کا ایندھن بنیں گی؟ یہ بھی خالصتاً شیطانی وسوسہ تھا۔ ایسے مواقع پر اللہ تعالیٰ دوسری صریح اور محکم آیات نازل فرما کر شکوک و شبہات اور شیطانی وساوس کو دور فرما کر اپنے حکم کی وضاحت فرما دیتا ہے۔ لات ومنات کی سفارش کا من گھڑت قصہ:۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری معلوم ہوتی ہے کہ اس آیت کے شان نزول کے متعلق بعض تفاسیر میں ایک واقعہ مندرج ہے جو یوں ہے کہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سورۃ النجم کی تلاوت فرما رہے تھے اور یہ تلاوت مشرکین مکہ بھی پاس موجود تھے۔ جب آپ نے آیات تلاوت فرمائیں۔ ﴿اَفَرَاَیْتُمُ اللاَّتَ وَالْعُزّٰی وَمَنَات الثَّالِثَۃَ الاُخْرٰی﴾ تو شیطان نے آپ کی آواز میں آواز ملا کر درج ذیل الفاظ یوں پڑھے کہ معلوم ہوتا تھا کہ یہ الفاظ آپ ہی کی زبان سے ادا ہوئے ہیں۔ ﴿تِلْکَ الْغَرَانِیْقُ الْعُلٰی وَاِنْ شَفَاعَتُھُنَّ لَتُرْجٰی۔﴾ (یہ اونچی گردنوں والی دیویاں ہیں یعنی لات، عزی اور منات۔ اور اللہ کے ہاں ان کی شفاعت کی یقیناً توقع کی جاسکتی ہے) چنانچہ جب مشرکین مکہ نے یہ الفاظ سنے تو ان کے کلیجے ٹھنڈے ہوگئے کہ ان کے بتوں کا بھلائی سے ذکر کیا گیا ہے۔ چنانچہ وہ بڑے غور سے آپ کی تلاوت سننے لگے اور سورۃ والنجم کے اختتام پر آپ نے اور دیگر مسلمانوں نے سجدہ کیا تو ساتھ ہی مشرکوں نے بھی سجدہ کیا۔ پھر یہ قصہ یہیں ختم نہیں ہوجاتا بلکہ اس کا اگلا حصہ یہ ہے کہ پھر یہ خبر مشہور ہوگئی کہ مسلمانوں اور کفار مکہ میں صلح و سمجھوتہ ہوگیا ہے یہ خبر اڑتی اڑتی جب مہاجرین حبشہ کو ملی تو ان میں سے بعض مہاجر مکہ واپس آگئے۔ لیکن یہاں آکر معلوم ہوا کہ یہ خبر غلط تھی۔ یہ واقعہ کئی لحاظ سے غلط ہے مثلاً: ١۔ ان تمام روایات کی اسناد مرسل اور متقطع ہیں۔ لہٰذا یہ روایات ساقط الاعتبار ہیں۔ اسی وجہ سے صحاح ستہ میں اس قسم کی کوئی روایت مذکور نہیں۔ ٢۔ ان آیات میں ’’اس شیطانی وسوسہ‘‘ سے پہلے ہی بتوں اور دیویوں کی مذمت مذکور ہے اور بعد میں بھی۔ لہٰذا درمیان میں بتوں کا یہ ذکر خیر کسی لحاظ سے بھی فٹ نہیں بیٹھتا۔ ٣۔ تاریخی لحاظ سے یہ روایات اس لئے غلط ہیں کہ ہجرت کا واقعہ ٥ نبوی میں پیش آیا تھا اور جو مہاجر اس غلط افواہ کی بنا پر واپس مکہ آئے تھے وہ صرف تین ماہ بعد آئے تھے۔ جبکہ یہ سورت مدنی ہے اور ہجرت حبشہ سے واپسی اور اس سورۃ کے نزول کے درمیان کم از کم آٹھ نو سال کا وقفہ ہے۔ [٨٢] شیطانی وساوس کا مختلف لوگوں پرمختلف اثر:۔ ان روایات میں دراصل کافروں کے ایک اعتراض کا جواب دیا گیا ہے جو یہ ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ جو بعد میں محکم اور واضح آیات نازل کرکے شکوک و شبہات کو رد کرتا ہے وہ پہلے ہی ایسے واضح احکام کیوں نہیں بھیج دیتا جن سے شکوک و شبہات پیدا ہی نہ ہوں‘‘ یہ اعتراض بھی دراصل کج رو اور کج فطرت کافروں کی عیاری کا غماز ہے اور اس کا جواب سورۃ آل عمران کے ابتداء میں آیات متشابہات اور آیات محکمات (آیت نمبر ٧) میں بیان ہوچکا ہے اور یہاں بھی انھیں دوسرے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ مختصراً یہ کہ : ١۔ شکوک میں مبتلا صرف وہی لوگ ہوتے ہیں جو منافق ہوں یا ہٹ دھرم کے کافر۔ ٢۔ ایسی آیات سے ہی ایمانداروں کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے اور برحق ہے۔ ٣۔ ایسی آیات دراصل سب لوگوں کے لئے ایک آزمائش اور جانچ ہوتی ہیں۔ جن سے یہ معلوم ہوسکتا ہے کہ کون کس مقام پر کھڑا ہے؟ آیا وہ منافقوں سے تعلق رکھتا ہے یا اللہ پر ایمان لانے والوں سے؟