سورة الحج - آیت 44

وَأَصْحَابُ مَدْيَنَ ۖ وَكُذِّبَ مُوسَىٰ فَأَمْلَيْتُ لِلْكَافِرِينَ ثُمَّ أَخَذْتُهُمْ ۖ فَكَيْفَ كَانَ نَكِيرِ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور مدین والوں نے۔ اور موسیٰ کو جھٹلایا گیا تو میں نے ان کافروں کو مہلت دی، پھر میں نے انھیں پکڑ لیاتو میرا عذاب کیسا تھا ؟

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٧١] عذاب میں تاخیر پرکافروں کا استہزاء :۔ان آیات میں ایک تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ کہہ کر تسلی دی جارہی ہے کہ کفار و مشرکین کے انکار، ضد، ہٹ دھرمی اور مخالفت کا واقعہ صرف آپ سے ہی پیش نہیں آیا بلکہ سب سابقہ انبیاء ایسے ہی حالات سے دو چار ہوتے رہے ہیں۔ انہوں نے ایسے مصائب پر صبر کیا تھا۔ لہٰذا آپ بھی صبر کیجئے۔ اور دوسرے یہاں ایک قانون بیان کیا جارہا ہے جو یہ ہے کہ انبیاء اس وقت مبعوث کئے جاتے ہیں۔ جب معاشرہ میں خاصا بگاڑ پیدا ہوچکا ہو۔ لوگ اللہ وحدہ کو بھول چکے ہوں۔ شرک کی وبا عام ہو۔ غریبوں اور کمزوروں کو ظلم و تشدد ہو رہا ہو۔ حکومت اور قیادت بڑے بڑوں کے ہاتھ میں ہو۔ ان حالات میں جب نبی آکر اللہ کی طرف دعوت دیتا ہے۔ تو جن بڑے بڑے لوگوں پر اس دعوت کی زد پڑتی ہے وہ سب اس نبی اور اس کی مختصر اور کمزور سی پیروکار جماعت کے مخالف ہوجاتے ہیں۔ جس پر نبی انھیں اللہ کے عذاب اور اس کی گرفت سے ڈراتا ہے اور جب عذاب میں تاخیر ہوتی ہے تو یہ بڑے بڑے فوراً یہ کہنے لگتے ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو ہم پر عذاب لے کیوں نہیں آتے؟ گویا نبی کی تکذیب کے لئے انھیں ایک اور دلیل ہاتھ آجاتی ہے۔ [٧٢] نکیر کا لغوی مفہوم: اللہ کے عذاب یا اس کی گرفت کے لئے بھی ایک قانون ہے۔ یہاں ایسی اندھیر نگری نہیں کہ ادھر کسی نے جرم کیا تو فوراً عذاب الٰہی سے وہ تباہ ہوگیا۔ ایسا ہوتا تو یہ دنیا کبھی آباد نہ رہ سکتی۔ اس کے بجائے اس کائنات میں اللہ کا قانون امہال و تدریج کام کرتا ہے اور عذاب کے سلسلہ میں یہی قانون ہے۔ اللہ مجرمین کو مہلت دیتا ہے۔ تاکہ انھیں انتباہ کے بعد سنبھلنے کا اور توبہ کرنے کا موقع میسر ہو۔ اس دوران اگر وہ سنبھل جائیں تو عذاب الٰہی رک جاتا ہے اور اگر نہ رکیں تو بھی عذاب اپنے معینہ مدت پر ہی آتا ہے اور جب اس کا معینہ وقت آجاتا ہے تو پھر وہ آکے رہتا ہے۔ اس آیت میں عذاب کے لئے نکیر کا لفظ استعمال ہوا ہے اس کے مادہ نکر میں ناگواری کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے اور اجنبیت کا بھی لہٰذا اس کی ضد عرف بھی آتی ہے اور عجب بھی اور نکیر کا لفظ کسی ناگوار بات کے معنوں میں بھی آتا ہے اور کسی ناگوار بات پر گرفت کے معنوں میں بھی۔ پھر نکر کے معنی کسی چیز کی شکل و صورت کو اس طرح بدلنا ہے کہ اس کا حلیہ بگڑ جائے۔ لہٰذا نکیر کے معنی ایسی گرفت یا عذاب ہوگا جو اس عذاب میں خود لوگوں کا حلیہ بگاڑ کے رکھ دے۔