سورة الحج - آیت 35

الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَالصَّابِرِينَ عَلَىٰ مَا أَصَابَهُمْ وَالْمُقِيمِي الصَّلَاةِ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

وہ لوگ کہ جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے، ان کے دل ڈرجاتے ہیں اور ان پر جو مصیبت آئے اس پر صبر کرنے والے اور نماز قائم کرنے والے ہیں اور ہم نے انھیں جو کچھ دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٥٤] ان کے دل اس بات سے سہم جاتے ہیں کہ مبادا ان سے کوئی کام اللہ کی مرضی اور منشاء کے خلاف سرزد ہوجائے۔ عمداً شرکیہ افعال بجا لانا تو بڑی دور کی بات ہے اور اس آیت میں مصیبت پر صبر کرنا، نماز کے قیام اور خرچ کرنے کا ذکر اس لحاظ سے ہے کہ سفر حج میں عموماً تکلیفیں بھی پیش آتی رہتی ہیں۔ نمازوں کے قضا ہونے کا بھی اندیشہ ہوتا ہے اور خرچ بھی خاصا اٹھتا ہے۔ لہٰذا یہ فرما دیا کہ اللہ کے حضور متواضع رہنے والوں میں یہ سب خوبیاں موجود ہوتی ہیں۔ یہ مطلب تو ربط مضمون کے لحاظ سے ہے تاہم ان کا حکم ہر حالت میں عام ہے۔ [٥٥] رزق حرام کی نسبت اللہ نے اپنی طرف نہیں کی :۔ یہاں رزق سے مراد حلال اور پاکیزہ کمائی ہے کیونکہ رزق حرام کی نسبت اللہ تعالیٰ نے کبھی اپنی طرف نہیں فرمائی۔ نہ رزق حرام سے صدقہ یا قربانی یا سفر حج کے اخراجات قابل قبول ہوتے ہیں۔ اور خرچ کرنے سے مراد اللہ کی راہ میں یا اللہ کے احکام کے تابع رہ کر خرچ کرنا ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص اسراف و تبذیر سے کام لیتا ہے یا سینما بینی اور فحاشی کے کاموں پر خرچ کرتا ہے تو یہ انفاق کی شرعی اصطلاح کی ذیل میں ہرگز نہیں آتے۔ بلکہ ایسے سب کام گناہوں کے کام ہیں۔