لِّيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ۖ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ
تاکہ وہ اپنے بہت سے فائدوں میں حاضر ہوں اور چند معلوم دنوں میں ان پالتو چوپاؤں پر اللہ کا نام ذکر کریں جو اس نے انھیں دیے ہیں، سو ان میں سے کھاؤ اور تنگ دست محتاج کو کھلاؤ۔
[٣٧]حج کے فوائدوبرکات :۔ یہ فائدے صرف دینی ہی نہیں بلکہ اس احتیاع حج سے کئی قسم کے سیاسی، اقتصادی، معاشی اور تمدنی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں۔ اور تمام مسلمانوں کو ایک مرکز وحد میسر آتا ہے۔ یہ حج ہی کی برکت تھی کہ قریش مکہ کو جو بیت اللہ کے متولی تھے پورے عرب میں ایک امتیازی مقام حاصل تھا۔ اور یہ حج کی برکت تھی کہ لوٹ مار کے دور میں بھی کم از کم چار مہینے لوگ امن و امان سے سفر کرسکتے تھے۔ یہ حج ہی کی برکت تھی کہ مکہ ایک عالمی تجارتی منڈی بن گیا تھا۔ اس تجارت سے اگرچہ بیرونی حضرات بھی خاصا فائدہ اٹھاتے تھے۔ تاہم سب سے زیادہ فائدہ اہل مکہ ہی کو پہنچتا تھا اور یہ حج کی برکت ہے کہ یہاں سے اٹھائی ہوئی آواز دنیا کے کونے کونے میں پہنچ جاتی تھی۔ [٣٨] ایام معلومات سے بعض علماء نے یکم سے دس ذی الحجہ تک کے دن مراد لئے ہیں۔ مگر یہ اس صورت میں جبکہ اللہ کے ذکر کو عام سمجھا جائے اور اگر اللہ کا نام لینے کو قربانی کے جانوروں سے متعلق سمجھا جائے تو یہ بعض کے نزدیک ١٠ ذی الحجہ اور اس کے بعد دو دن ہیں۔ اور بعض کے نزدیک تین دن یعنی ١٣ ذی الحجہ کی عصر تک ان کے نزدیک قربانی کرنا جائز ہے۔ بھیمۃ الانعام سے مراد اونٹ، گائے، بھیڑ، بکری وغیرہ ہیں، جن کی قربانی دی جاتی ہیں اور یہ اسی صورت میں حلال ہوں گے جبکہ ذبح کرتے وقت ان پر اللہ کا نام لیا جائے۔ اگر اللہ کے سوا کسی اور کا نام بھی لیا جائے یا عمداً اللہ کا نام چھوڑ دیا جائے تو ایسے ذبح شدہ جانور کا کھانا حلال اور جائز نہ ہوگا۔ اور اگر ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لینا بھول جائے تو قربانی جائز اور حلال ہی رہے گی جب یاد آئے اسی وقت ہی اللہ کا نام لے لیا جائے۔ اگرچہ ذبح کے وقت کی کئی دعائیں منقول ہیں۔ تاہم مختصر سے مختصر الفاظ جو قربانی کے وقت کہے جاسکتے ہیں، یہ ہیں بسم اللہ اللہ اکبر [٣٩] وہ امورجودورجاہلیت میں نیکی سمجھے جاتے تھے مگر اسلام نے ان کی اصلاح کی :۔ جاہلی دور میں کئی کام ایسے تھے۔ جنہیں نیکی کے کام اور معروف سمجھ کر بجا لایا جاتا تھا۔ مگر اسلام نے ان میں اصلاح کی۔ جیسے سفر حج میں حجارت نہ کرنا، پیدل روانہ ہونا، مشکل کے وقت بھی قربانی کے جانور پر سوار نہ ہونا، سفر سے واپسی پر گھر کے پچھواڑے سے داخل ہونا، ننگے ہو کر طواف کرنا، صفا و مردہ کے طواف کو اچھا نہ سمجھنا، عرفات کے قیام کو ضروری نہ سمجھنا، ایسے ہی امور میں سے ایک یہ بات تھی کہ وہ قربانی کے گوشت سے خود کچھ نہیں کھاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ الفاظ کہہ کر ان کی غلط فہمی کا ازالہ فرما دیا۔ [٤٠]قربانی کے گوشت کی تقسیم : اس کا یہ مطلب نہیں کہ قربانی کے گوشت سے غنی قسم کے لوگ کھا ہی نہیں سکتے۔ بلکہ یہ ہے کہ محتاجوں اور فقراء و مساکین کو ضرور شامل کیا جائے۔ اور خود کھانے کا بھی یہ مطلب نہیں کہ اس میں سے ضرور ضرور کھایا جائے بلکہ یہ ہے کہ قربانی کا گوشت خود کھانے میں کچھ حرج نہیں ہے۔ اور اس سلسلہ میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا قول یہ ہے کہ ایک حصہ خود رکھ لو۔ ایک حصہ اپنے ہمسایہ اور رشتہ داروں میں تقسیم کردو اور ایک حصہ فقراء مساکین میں۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ یہ تینوں حصے برابر برابر ہوں۔ بلکہ حسب ضرورت اس میں کمی بیشی کی جاسکتی ہے اور بہتر یہ ہے کہ اپنے لئے حصہ تیسرے سے کم رکھا جائے اور فقراء کے لئے تیسرے حصہ سے زیادہ۔