أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَسْجُدُ لَهُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَمَن فِي الْأَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُومُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ وَكَثِيرٌ مِّنَ النَّاسِ ۖ وَكَثِيرٌ حَقَّ عَلَيْهِ الْعَذَابُ ۗ وَمَن يُهِنِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِن مُّكْرِمٍ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ ۩
کیا تو نے نہیں دیکھا کہ بے شک اللہ، اسی کے لیے سجدہ کرتے ہیں جو کوئی آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں اور سورج اور چاند اور ستارے اور پہاڑ اور درخت اور چوپائے اور بہت سے لوگ۔ اور بہت سے وہ ہیں جن پر عذاب ثابت ہوچکا اور جسے اللہ ذلیل کر دے پھر اسے کوئی عزت دینے والا نہیں۔ بے شک اللہ کرتا ہے جو چاہتا ہے۔
[٢٣] کائنات کی ہرچیز کے سجدہ ریزہونے کامطلب:۔ ساری کائنات میں انسان اور جن ہی مکلف مخلوق ہیں اور انھیں کو قوت ارادہ و اختیار دیا گیا ہے باقی مخلوق تکوینی طور پر اللہ کے حضور ہر وقت سجدہ ریز رہتی ہے اور ان کے سجدہ کا مطلب یہ ہے کہ جس کام پر اللہ نے انھیں لگا دیا ہے یا جو خدمت ان کے ذمہ کردی ہے اور جو قوانین ان کے لئے مقرر کردیئے ہیں ان سے وہ سرمو تجاوز نہیں کرتے اور انسانوں میں سے بھی ایک کثیر طبقہ ایسا ہے جس نے اپنے ارادہ کو اللہ کی مرضی کے تابع بنا دیا ہے اور برضا و رغبت اللہ کی فرمانبرداری کرتے ہیں اور اس کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ تاہم انسانوں کا ایک کثیر طبقہ ایسا بھی ہے جس نے اس اختیار کا غلط استعمال کیا اور باقی تمام مخلوق کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی بجائے اللہ کے احکام کے مقابلہ میں سرکشی کی راہ اختیار کی۔ اور اس امتحان میں ناکام رہا جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا تھا۔ ایسے لوگوں کو یقیناً اس سرکشی کی سزا عذاب الیم کی صورت میں بھگتنا پڑے گی۔ [٢٤] یعنی اللہ کے سے احکام روگردانی اور اس کے حضور سجدہ سے سرکشی کا لازمی نتیجہ ذلت اور رسوائی ہے۔ اور اللہ کے نافرمانوں کو بسا اوقات دنیا میں ہی یہ برا نتیجہ دیکھنا پڑتا ہے اور اگر دنیا میں بچ بھی جائے تو آخرت میں اسے ضروری اس نتیجہ سے دورچار ہونا پڑے گا۔ اور کوئی طاقت اسے اس سزا سے بچا نہ سکے گی۔ [٢٥] اس سورۃ حج میں دو سجدہ ہائے تلاوت ہیں۔ اس آیت نمبر ١٨ پر پہلا سجدہ ہے اور یہی سجدہ متفق علیہ ہے جو ہر پڑھنے والے اور سننے والے کو ادا کرنا چاہئے تاکہ وہ بھی کائنات کی جملہ اشیاء کے سجدہ میں ان کے ہم آہنگ اور شریک ہوجائے۔