إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالصَّابِئِينَ وَالنَّصَارَىٰ وَالْمَجُوسَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا إِنَّ اللَّهَ يَفْصِلُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ
بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور جو یہودی بنے اور صابی اور نصاریٰ اور مجوس اور وہ لوگ جنھوں نے شرک کیا یقیناً اللہ ان کے درمیان قیامت کے دن فیصلہ کرے گا۔ بے شک اللہ ہر چیز پر گواہ ہے۔
[١٦] یعنی کسی بھی اللہ کے رسول پر ایمان لائے۔ کیونکہ تمام انبیا و رسل کے اصول دین ایک ہی رہے ہیں۔ (تفصیل کے لئے اسی سورۃ کی آیت نمبر ٩٢، ٩٣ کے حواشی ملاحظہ فرما لیجئے) اس لحاظ سے ہر نبی پر ایمان لانے والے مسلمان ہوئے اور اسلام اور ایمان کا صرف یہ فرق ہے کہ اسلام کا تعلق ظاہری اعمال سے ہوتا ہے اور ایمان کا دل سے۔ اللہ اور اس کے رسول کی جس قدر اطاعت کی جائے، ایمان اتنا ہی پختہ ہوتا جاتا ہے اور جتنا ایمان پختہ ہوتا جاتا ہے اطاعت کی مزید توفیق نصیب ہوتی رہتی ہے۔ گویا اسلام اور ایمان دونوں ایک دوسرے سے مربوط اور ایک دوسرے کے ممدو معاون ہوتے ہیں۔ [١٧] بنی اسرائیل میں سے کون سافرقہ یہودی کہلایاہے:۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر جو لوگ ایمان لائے تھے وہ بھی مسلمان ہی تھے اور بنی اسرائیل کی قوم سے تعلق رکھتے تھے۔ موسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں انھیں یہود نہیں کہا جاتا تھا۔ یہود تو وہ اس وقت کہلائے جب ان کےمذہب میں بھی ان کے بدعی عقائد شامل ہوگئے اور انہوں نے کتاب اللہ میں تحریف تک کر ڈالی۔ بعض لوگوں کے خیال کے مطابق ان کی نسبت یعقوب علیہ السلام کے بڑے بیٹے یہودا کی طرف ہے۔ مگر یہ توجیہ دو لحاظ سے درست معلوم نہیں ہوتی ایک یہ کہ اس لحاظ سے یہودی ایک قبیلہ تو کہلا سکتے ہیں ایک مذہب نہیں کہلا سکتے ہیں۔ حالانکہ یہودی ایک مذہب کا نام ہے کسی قبیلہ کا نام نہیں اور دوسرے اس لحاظ سے یہودیوں میں تمام بنی اسرائیل شامل ہیں صرف یہودا کی اولاد کی اولاد نہیں۔ اور بعض علماء کے خیال کے مطابق بنی اسرائیل حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک بنی اسرائیل ہی کہلاتے تھے۔ بعد میں نصاریٰ کے مقابلہ میں ان کا نام یہودی پڑگیا۔ [١٨]صابی کون ہیں ؟ صابی دراصل وہ ستارہ پرست اور سورج پرست قوم ہے جس نے اپنے معبودوں کی حمایت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا تھا۔ یہ لوگ اپنے آپ کو حضرت نوح علیہ السلام کا پیروکار بتلاتے ہیں اور باقی بعد میں آنے والے سب انبیاء کے منکر ہیں۔ بعد میں صبأ کا لفظ دین میں تبدیل کرنے یا آبائی مذہب سے سے روگردانی کرنے کے معنوں میں استعمال ہونے لگا اور ایک گالی کی حیثیت اختیار کر گیا۔ چنانچہ مشرکین مکہ بھی اسلام لانے والوں کو اسی محبت سے نوازتے تھے اور کہتے تھے کہ فلاں شخص صابی ہوگیا ہے۔ یعنی بےدین اور لا مذہب ہوگیا ہے۔ جیسا کہ ہندوستان میں توحید کی طرح رجوع کرنے والوں کو وہانی کے لقب سے نوازا جانے لگا ہے۔ [١٩] عیسائیوں کےمختلف نام :۔سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اور ان پر نازل شدہ کتاب انجیل کے پیروکار۔ ابتداً ان کا نام ناصری یا گلیلی تھا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ناصرہ ضلع گلیل میں پیدا ہوئے تھے۔ چنانچہ یہود انھیں ایک بدعتی فرقہ کی حیثیت سے ناصری یا گلیلی کہہ کر پکارتے تھے۔ قرآن میں ان کا نام نصاریٰ مذکور ہے۔ اور اسے بھی ناصرہ سے منسوب قرار دیا جاسکتا ہے اور اس کی دوسری توجیہ یہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے پیروکار یا حواریوں نے ﴿نَحْنُ اَنْصَار اللّٰہِ ﴾ (۵۲:۳)کا اقرار کیا تھا۔ لہٰذا یہ لوگ نصاریٰ کہلائے۔ بعد میں انہوں نے اپنے لئے عیسائی کا لقب پسند کرلیا ان لوگوں نے بھی بعد میں بہت سے بدعی عقائد شامل کر لئے جیسے عقیدہ تثلیث، الوہیت مسیح اور کفار مسیح وغیرہ ۔ [٢٠] مجوس کا تعارف:۔ مجوسی بھی آتش پرست اور ستارہ پرست لوگ تھے اور صابی فرقہ کی طرح اپنے آپ کو حضرت نوح علیہ السلام کے پیروکار بتلاتے ہیں اور باقی پیغمبروں کے منکر ہیں۔ ان کے نزدیک نیکی اور بدی کے خدا الگ الگ ہیں۔ نیکی کا خدا یا خالق یزدان ہے اور بدی کا خدا یا خالق اہرمن ہے۔ یہ لوگ اپنی الہامی کتابوں کا نام ژند اور ستا بتاتے ہیں۔ مَزدَک نے ان کے مذہب اور اخلاق کو بری طرح مسخ کرکے رکھ دیا تھا حتیٰ کہ حقیقی بہن سے نکاح بھی ان کے ہاں جائز قرار دیا گیا۔ [٢١] مشرک سے مراد مشرکین مکہ اور دوسرے ممالک کے مشرکین ہیں۔ جو مندرجہ بالا گروہوں کے ناموں میں سے کسی نام سے منسوب نہیں۔ اگرچہ موحد مسلمانوں کے سوا مندرجہ بالا سب مذاہب میں شرک کی کوئی نہ کوئی قسم ضرور پائی جاتی ہے۔ [٢٢] اس کا یہ مطلب نہیں کہ قیامت سے پہلے ہمیں یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ اختلاف کہاں واقع ہوتا ہے اور کون سا فرقہ کس قدر حق پر ہے۔ کیونکہ اصول دین ہمیشہ ایک ہی رہے ہیں اور تمام الہامی کتابوں میں مذکور ہیں اگرچہ تورات اور انجیل یا بائیبل میں تحریف ہوچکی ہے۔ پھر بھی ان اصول دین کا سراغ لگایا جاسکتا ہے اور یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ فلاں فرقہ کا فلاں عقیدہ درست ہے اور فلاں باطل ہے۔ مگر یہاں اس دنیا میں کوئی بھی فرقہ مذہبی تعصب کی بنا پر حق کو تسلیم کرلینے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ لہٰذا قیامت کے دن خود اللہ تعالیٰ نہ صرف یہ کہ ان باتوں کا فیصلہ کر دے گا بلکہ اس فیصلہ کا نفاذ بھی کردے گا۔