سورة البقرة - آیت 255

اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ ۚ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ۚ لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ ۚ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ ۖ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ ۚ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ۖ وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا ۚ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اللہ (وہ ہے کہ) اس کے سوا کوئی معبود نہیں، زندہ ہے، ہر چیز کو قائم رکھنے والا ہے، نہ اسے کچھ اونگھ پکڑتی ہے اور نہ کوئی نیند، اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے، کون ہے وہ جو اس کے پاس اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرے، جانتا ہے جو کچھ ان کے سامنے اور جو ان کے پیچھے ہے اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کرتے مگر جتنا وہ چاہے۔ اس کی کرسی آسمانوں اور زمین کو سمائے ہوئے ہے اور اسے ان دونوں کی حفاظت نہیں تھکاتی اور وہی سب سے بلند، سب سے بڑا ہے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٣٦١] یہ آیت آیۃ الکرسی کے نام سے مشہور ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی ایسی مکمل معرفت بیان کی گئی ہے جس کی نظیر نہیں ملتی۔ اسی لیے اس آیت کو قرآن کی سب سے افضل آیت قرار دیا گیا ہے۔ جیسا درج ذیل احادیث سے واضح ہے۔ فضائل آیۃ الکرسی :۔۱۔ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے مجھ سے پوچھا ’’ابو منذر! جانتے ہو، تمہارے پاس کتاب اللہ کی سب سے عظمت والی آیت کونسی ہے؟‘‘ میں نے کہا : اللہ و رسولہ، اعلم۔ آپ نے پھر پوچھا : ابو منذر! جانتے ہو تمہارے پاس کتاب اللہ کی کونسی آیت سب سے عظیم ہے : میں نے کہا : ﴿لاَ اِلٰہَ الاَّ ھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ﴾ آپ نے میرے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایا : ’’ابو منذر! تمہیں علم مبارک ہو۔‘‘ (مسلم، کتاب فضائل القرآن وما یتعلق بہ۔ باب فضل سورۃ کہف و آیۃ الکرسی) ٢۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ نے مجھے صدقہ فطر کی حفاظت پر مقرر کیا۔ کوئی شخص آیا اور غلہ چوری کرنے لگا میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا : میں تجھے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے جاؤں گا ؟ وہ کہنے لگا، میں محتاج ہوں، عیالدار اور سخت تکلیف میں ہوں۔ چنانچہ میں نے اسے چھوڑ دیا، جب صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا : ابوہریرہ ! آج رات تمہارے قیدی نے کیا کہا تھا ؟ میں نے کہا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس نے محتاجی اور عیالداری کا شکوہ کیا تھا۔ مجھے رحم آیا تو میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ نے فرمایا : دھیان رکھنا وہ جھوٹا ہے وہ پھر تمہارے پاس آئے گا۔ چنانچہ اگلی رات وہ پھر آیا اور غلہ اٹھانے لگا۔ میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا آج تو ضرور میں تمہیں آپ کے پاس لے جاؤں گا۔ وہ کہنے لگا مجھے چھوڑ دو میں محتاج ہوں اور عیالدار ہوں، آئندہ نہیں آؤں گا مجھے پھر رحم آ گیا اور اسے چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ سلم نے مجھ سے پوچھا : ’’ابوہریرہ ! تمہارے قیدی نے کیا کیا ؟‘‘ میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اس نے سخت محتاجی اور عیالداری کا شکوہ کیا تھا، مجھے رحم آ گیا تو میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ نے فرمایا : دھیان رکھنا وہ جھوٹا ہے اور وہ پھر آئے گا۔چنانچہ تیسری بار میں تاک میں رہا۔ وہ آیا اور غلہ سمیٹنے لگا : میں نے کہا : اب تو میں تمہیں ضرور آپ کے پاس لے جاؤں گا۔ اب یہ تیسری بار ہے تو ہر بار یہی کہتا رہا کہ پھر نہ آؤں گا مگر پھر آتا رہا۔ جھوٹابھی کبھی سچی بات کہہ دیتاہے:۔ اس نے کہا مجھے چھوڑ دو، میں تمہیں چند کلمے سکھاتا ہوں جو تمہیں فائدہ دیں گے۔میں نے کہا : وہ کیا ہیں؟ کہنے لگا : جب تو سونے لگے تو آیۃ الکرسی پڑھ لیا کر۔ اللہ کی طرف سے ایک فرشتہ تیرا نگہبان ہوگا۔ اور صبح تک شیطان تیرے پاس نہیں آئے گا۔ چنانچہ میں نے اسے پھر چھوڑ دیا، صبح ہوئی تو آپ نے مجھ سے پوچھا: تیرے قیدی نے آج رات کیا کیا ؟ میں نے آپ کو ساری بات بتلا دی، تو آپ نے فرمایا! اس نے یہ بات سچی کہی حالانکہ وہ کذاب ہے۔ پھر آپ نے مجھ سے کہا : ابوہریرہ ! جانتے ہو، تین راتوں سے کون تمہارے پاس آتا رہا ہے؟میں نے کہا : نہیں۔ آپ نے فرمایا وہ شیطان تھا۔ (بخاری۔ کتاب الوکالة باب اذا و کل رجلا فترک الوکیل شیأ..... الخ) ٣۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ہر چیز کی ایک کوہان ہوتی ہے اور قرآن کی کوہان سورۃ بقرہ ہے اور اس میں ایک آیت جو قرآن کی سب آیتوں کی سردار ہے اور وہ آیت الکرسی ہے۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر۔ باب ماجاء فی سورۃ البقرة و آیۃ الکرسی) الوہیت کی لازمی صفات اور سب معبودان باطل کابطلان :۔ اس آیت کی عظمت یہ ہے کہ یہ آیت جہاں اللہ تعالیٰ کی تحمید و تقدیس بیان کرتی ہے وہاں شرک کی سب اقسام کی جڑ کاٹ کے رکھ دیتی ہے۔ ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور اس کی دلیل میں دو باتیں یا دو صفات ارشاد فرمائیں، ایک یہ کہ وہ حَیٌّ ہے، ازل سے زندہ ہے اور ابد تک رہے گا۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ جو ہستی حی نہیں وہ الٰہ نہیں ہو سکتی، اس معیار پر پرکھا جائے تو دوسرے تمام الاہوں کی الوہیت باطل قرار پاتی ہے۔ اس لیے کہ وہ حادث ہیں اور جو چیز حادث ہے اسے فنا یا موت لازمی ہے۔ خواہ یہ معبود جمادات سے تعلق رکھتے ہوں یا نباتات سے یا حیوانات سے یا انسانوں یا فرشتوں اور جنوں سے یا اجرام سماوی سے یہ سب چیزیں حادث ہیں اور کوئی چیز بھی حَیٌّ ہونے کی صفت پر پوری نہیں اترتی، دوسری صفت یہ بیان فرمائی کہ وہ قائم بالذات ہے اور دوسری تمام اشیاء کو قائم رکھنے والی ہے۔ یہ صفت بھی اللہ کے سوا دوسرے کسی معبود میں نہیں پائی جاتی۔ اجرام سماوی خود جکڑے بندے قانون کے تحت محو گردش ہیں۔ پتھروں کے معبود اپنے پجاریوں کے محتاج ہیں کہ وہ انہیں دھو دھا کر صاف کرتے رہیں۔ پھر جب چاہیں ان میں ادل بدل بھی کرلیں اور ان کی الوہیت ان مجاوروں اور مریدوں کے سہارے قائم ہے جو لوگوں سے نذرانے وصول کرتے ہیں اور ان اولیاء اللہ کے متعلق جھوٹے افسانے اور قصے کہانیاں ان کی طرف منسوب کر کے لوگوں کو ان سے ڈراتے دھمکاتے اور لوگوں کو نذرانے پیش کرنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ یہ لوگ اگر اپنی سرپرستی سے ہاتھ کھینچ لیں تو ان کی خدائی ایک دن بھی نہیں چل سکتی۔ آگے فرمایا کہ اسے نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند۔ یہ اللہ تعالیٰ کی عیوب سے تقدیس ہے اونگھ نیند کا ابتدائی درجہ ہے اور نیند ایک اضطراری کیفیت ہے جو ہر جاندار کو اس وقت لاحق ہوتی ہے جب وہ کام کرتے کرتے تھک جاتا ہے۔ ایسی حالت میں نیند اس پر غالب آ کر اسے بے ہوش بنا دیتی ہے اور اس میں موت کے کچھ آثار بھی پائے جاتے ہیں۔ اسی لیے احادیث میں نیند کو موت کی بہن قرار دیا گیا ہے اور بعض احادیث میں اسے موت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اگر اونگھ یا نیند آ جائے تو اس کائنات کا سارے کا سارا نظام آن کی آن میں درہم برہم ہوجائے اور اللہ کے سوا جتنے معبود ہیں وہ سب یا تو پہلے ہی مردہ ہیں یا پھر وہ اونگھ، نیند اور موت کا شکار ہونے والے ہیں، لہٰذا وہ الٰہ نہیں ہو سکتے۔ سفارش کی کڑی شرط:۔ آگے فرمایا کہ زمین اور آسمان کی جملہ اشیاء اس کی مملوک ہیں اور وہ ان کا مالک ہے اور یہ تو ظاہر ہے جو چیز خود کسی دوسرے کی مملوک ہو وہ الٰہ نہیں ہو سکتی۔ پھر فرمایا کہ اس کے پاس کسی کو اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرنے کی قطعاً اجازت نہ ہوگی۔ عرب لوگ بھی کسی نہ کسی رنگ میں اللہ کے ہاں سفارش کے قائل تھے اور یہ سفارش دنیوی معاملات کے لیے بھی ہو سکتی ہے اور اخروی نجات کے لیے بھی۔ مشرکین کا سفارش کے متعلق یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ ان کے دیوتا یا فرشتے یا اولیاء چونکہ خود اللہ کی طرف سے تفویض کردہ اختیارات کے مالک ہیں۔ لہٰذا وہ ہمیں ہر طرح سے فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور چونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے پیارے ہیں۔ اس لیے صرف اللہ کے ہاں سفارش ہی نہیں بلکہ اس پر دباؤ ڈال کر اپنے ماننے والوں کو اللہ کی گرفت سے بچا سکتے اور ان کی بگڑی بنا سکتے ہیں۔ یہ عقیدہ چونکہ اللہ کے بجائے دوسروں پر توکل اور اعتماد کی راہ دکھلاتا ہے۔ لہٰذا اس عقیدہ کی پرزور الفاظ میں تردید فرما کر شرک کا یہ دروازہ بھی بند کردیا۔ ساتھ ہی (الا باذنہ) فرما کر سفارش کی کلیۃ نفی نہیں کی۔ بلکہ چند در چند شرائط عائد کر کے سفارش پر اعتماد کے عقیدہ کو یکسر ختم کردیا اور وہ شرائط یہ ہیں کہ اللہ جسے خود چاہے گا اسے ہی سفارش کی اجازت دے گا اور جس شخص کے حق میں چاہے گا اسی کے لیے اجازت دے گا اور جس کام کی معافی کے لیے سفارش کی اجازت دے گا۔ سفارش کرنے والا صرف اسی بات کے متعلق سفارش کرسکے گا۔ اس کے بعد فرمایا کہ اللہ تو سب لوگوں کے اگلے اور پچھلے، ماضی اور مستقبل کے سب حالات سے پوری طرح واقف ہے۔ جبکہ دوسرے اللہ کی وسعت علم کی گرد کو بھی نہیں پا سکے۔ سفارش تو یہ ہوتی ہے کہ فلاں شخص سے فلاں کام غلطی سے یا دانستہ سرزد ہوگیا ہے۔ اس کی زندگی کا سابقہ ریکارڈ بالکل ٹھیک ہے لہٰذا اس کا یہ گناہ معاف کردیا جائے۔ لیکن اللہ کے مقابلہ میں ان مشرکوں کے مزعومہ سفارشی اللہ کے علم میں کیا اضافہ کرسکتے ہیں ان کو تو اتنا ہی علم دیا گیا ہے جتنا کہ اللہ کو منظور تھا اور جو اپنی ذات کا بھی پورا علم نہیں رکھتا وہ دوسروں کے متعلق کیسے رکھتا ہے۔ آیۃ الکرسی معرفت الٰہی کاگنجینہ :۔ آگے فرمایا کہ اس کی کرسی تمام کائنات کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ یہاں بعض لوگوں نے کرسی کا معنی اقتدار کیا ہے، لیکن ہم ان لوگوں کے نظریہ کے قائل نہیں بلکہ ہمارے خیال میں کرسی کے لفظ کے معانی میں جو جامعیت ہے وہ اقتدار میں نہیں ہے۔ پھر کوئی اللہ کی گرفت سے بچ کر کہاں جا سکتا ہے۔ آگے فرمایا کہ کائنات کے انتظام و انصرام اور اس کی حفاظت اللہ تعالیٰ کو نہ تھکاتی ہے اور نہ گرانبار بناتی ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کو انسان اور انسانی کمزوریوں پر محمول نہ کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات تو ہر قسم کی تشبیہات سے ماورا بھی ہے اور عظمت والی بھی ہے۔ گویا ان آخری جملوں میں پھر اللہ تعالیٰ کی تقدیس بیان کی گئی ہے۔ گویا تحمید، تسبیح اور تقدیس سب پہلوؤں سے یہ آیت ایک جامع آیت ہے۔ [٣٦٢] یہاں ہم تین احادیث صحیحہ درج کرتے ہیں جس سے شفاعت کے کئی پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے۔ مثلاً یہ کہ قیامت کا دن اس قدر ہولناک ہوگا کہ بڑے بڑے انبیاء بھی اللہ کے حضور سفارش کرنے کی جرات نہ کرسکیں گے اور بالآخر قرعہ فال نبی آخر الزمان پر پڑے گا، نیز یہ کہ سفارش کیسے لوگوں کے حق میں ہوگی، نیز یہ کہ ہمارے ہاں جو پیر و فقیر اپنے مریدوں سے بےدھڑک شفاعت کرنے کے وعدے کرتے ہیں یا جن لوگوں نے اپنی اخروی نجات کا انحصار ہی اپنے پیروں اور مشائخ کی شفاعت سمجھا ہوا ہے اس کی کیا حقیقت ہے وغیرہ وغیرہ۔ ١۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : قیامت کے دن ایماندار لوگ جمع ہو کر کہیں گے بہتر یہ ہے کہ ہم اپنے پروردگار کے حضور کسی کی سفارش پہنچائیں۔ وہ آدم علیہ السلام کے پاس آ کر کہیں گے۔آپ سب لوگوں کے باپ ہیں۔ آپ کو اللہ نے اپنے ہاتھ سے بنایا، فرشتوں سے سجدہ کرایا اور آپ کو تمام اشیاء کے نام سکھلائے۔ لہٰذا اپنے پروردگار کے ہاں ہماری سفارش کریں کہ وہ اس مصیبت کی جگہ سے نکال کر آرام دے۔ وہ کہیں گے : میں اس لائق نہیں اور وہ اپنا قصور یاد کر کے (اللہ کے حضور جانے سے) شرمائیں گے اور کہیں گے: تم نوح کے پاس جاؤ۔ وہ پہلے رسول ہیں۔ جنہیں اللہ نے زمین والوں کی طرف بھیجا، لوگ نوح کے پاس جائیں گے تو وہ کہیں گے: میں اس کا اہل نہیں۔ وہ اپنا سوال یاد کر کے شرمائیں گے جو انہوں نے بغیر علم کے اپنے پروردگار سے کیا تھا۔ پھر کہیں گے تم اللہ کے خلیل (حضرت ابراہیم علیہ السلام) کے پاس جاؤ۔ لوگ ان کے پاس آئیں گے۔ وہ بھی یہی کہیں گے کہ میں اس کا اہل نہیں۔ تم موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ وہ ایسے بندے ہیں جن سے اللہ نے کلام کیا اور انہیں تورات دی۔چنانچہ لوگ موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو وہ کہیں گے: میں اس کا اہل نہیں۔ وہ اپنے خون ناحق کو یاد کر کے اپنے پروردگار کے ہاں جانے سے شرمائیں گے اور کہیں گے : تم عیسیٰ کے پاس جاؤ، وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول، اس کا کلمہ اور اس کی روح ہیں۔ اب لوگ ان کے پاس جائیں گے تو وہ کہیں گے : میں اس کا اہل نہیں۔ تم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جاؤ۔ وہ ایسے (مقرب) بندے ہیں جن کے اللہ تعالیٰ نے سب اگلے پچھلے قصور معاف کردیئے ہیں۔۔ شفاعت کبریٰ :۔ پھر لوگ میرے پاس آئیں گے تو میں وہاں سے چل کر اپنے پروردگار کے حضور حاضر ہونے کی اجازت طلب کروں گا، مجھے اجازت مل جائے گی۔ پھر جب میں اپنے پروردگار کو دیکھوں گا تو سجدہ میں گر جاؤں گا پھر جب تک پروردگار چاہے گا، مجھے سجدہ میں پڑا رہنے دے گا، پھر ارشاد ہوگا، اپنا سر اٹھاؤ اور سوال کرو وہ تمہیں دیا جائے گا اور بات کرو تو سنی جائے گی اور سفارش کرو تو قبول کی جائے گی۔ چنانچہ میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور اس کی ایسی تعریف کروں گا جو اللہ تعالیٰ مجھے اس وقت سکھلائے گا۔ پھر میں سفارش کروں گا جس کے لیے ایک حد مقرر کی جائے گی۔ میں ان لوگوں کو بہشت میں پہنچا دوں گا۔ پھر اپنے پروردگار کی طرف لوٹ آؤں گا اور جب اپنے پروردگار کو دیکھوں گا تو پہلے کی طرح سجدہ میں گر جاؤں گا۔ پھر میں سفارش کروں گا تو میرے لیے ایک حد مقرر کردی جائے گی، میں انہیں جنت میں داخل کروں گا۔ پھر تیسری بار اپنے پروردگار کی طرف لوٹ آؤں گا، پھر چوتھی بار آؤں گا۔ اور عرض کروں گا : پروردگار! اب تو دوزخ میں (جانے والے) وہی لوگ باقی رہ گئے ہیں جو قرآن کی رو سے دوزخ میں جانے کے لائق ہیں اور انہیں ہمیشہ دوزخ میں رہنا ہے۔ (بخاری، کتاب التفسیر) زیر آیت ﴿عَلَّمَ اٰدَمَ الأَسْمَاءَ﴾ ٢۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : میں قیامت کے دن تمام اولاد آدم کا سردار ہوں گا اور اس میں کوئی فخر نہیں اور حمد کا جھنڈا میرے ہاتھ میں ہوگا اور اس میں کوئی فخر نہیں اور آدم اور باقی سب انبیاء میرے جھنڈے تلے ہوں گے اور سب سے پہلے زمین میرے ہی لیے (بعث کے لیے) شق ہوگی اور اس میں کوئی فخر نہیں۔ پھر آپ نے تین بار فرمایا کہ لوگ اس دن بہت گھبرائے ہوئے ہوں گے۔ وہ آدم علیہ السلام کے پاس آ کر کہیں گے : ’’آپ ہمارے باپ ہیں لہٰذا ہمارے رب کے ہاں ہماری سفارش کیجئے‘‘وہ کہیں گے : ’’مجھ سے ایسا گناہ سرزد ہوا جس کی وجہ سے زمین پر اتارا گیا۔ البتہ تم لوگ نوح کے پاس جاؤ‘‘ لوگ نوح علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو وہ کہیں گے : میں نے ساری زمین والوں کے لیے بددعا کی اور وہ ہلاک ہوگئے، البتہ تم ابراہیم کے پاس جاؤ۔ لوگ ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو وہ کہیں گے : میں نے تین جھوٹ بولے ہیں۔ پھر آپ نے فرمایا : کہ آپ نے کوئی جھوٹ نہیں بولا مگر اس سے دین کی تائید مقصود تھی۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کہیں گے کہ تم موسیٰ کے پاس جاؤ، لوگ موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو وہ کہیں گے : میں نے ایک شخص کو مار ڈالا تھا۔ اب تم عیسیٰ کے پاس جاؤ۔ وہ کہیں گے۔ ' مجھے لوگوں نے اللہ کے علاوہ معبود بنا ڈالا تھا۔ تم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جاؤ۔ پھر سب لوگ میرے پاس آئیں گے۔ سو میں ان کے ساتھ جاؤں گا اور جا کر جنت کا دروازہ کھٹکھٹاؤں گا۔ اندر سے کوئی پوچھے گا : ’’یہ کون ہے؟‘‘ کہا جائے گا: ’’ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں‘‘ تو وہ میرے لیے دروازہ کھول دیں گے اور مجھے خوش آمدید کہیں گے اور تواضع کریں گے، میں سجدہ میں گر جاؤں گا۔ اس وقت اللہ مجھے اپنی حمد و ثنا الہام کرے گا۔ پھر مجھے کہا جائے گا اپنا سر اٹھاؤ اور مانگو تمہیں دیا جائے گا اور سفارش کرو تو قبول کی جائے گی اور تمہاری بات سنی جائے گی اور یہی وہ مقام محمود ہے جس کا اللہ نے اس آیت میں ذکر فرمایا ہے: ﴿وَمِنَ الَّیْلِ فَتَہَجَّدْ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ ڰ عَسٰٓی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا ﴾ (ترمذی، ابو اب التفسیر، سورۃ بنی اسرائیل) ٣۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ سے پوچھا! ’’یا رسول اللہ ! قیامت کے دن آپ کی شفاعت کا سب سے زیادہ مستحق کون ہوگا ؟‘‘ آپ نے فرمایا! ’’ابوہریرہ ! مجھے معلوم تھا کہ تجھ سے پہلے مجھ سے کوئی یہ بات نہ پوچھے گا کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ تمہیں حدیث سننے کی کتنی حرص ہے تو سنو : میری شفاعت سب سے زیادہ اس شخص کے نصیب میں ہوگی جس نے سچے دل سے لا الہ الا اللہ کہا ہو۔ (بخاری، کتاب العلم۔ باب الحرص علی الحدیث) [٣٦٣] اللہ کےعلم کی وسعت :۔ کیونکہ یہ کائنات اور اس کی وسعت لامحدود ہے اور اس کا احاطہ انسان کی بساط سے باہر ہے۔ انسان جتنی طاقتور سے طاقتور دوربینیں ایجاد کرتا ہے، کائنات کی وسعت دیکھ کر اس کی حیرانگی میں مزید اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ پھر بھلا وہ اس کے علم کا کیا احاطہ کرسکے گا۔ انسان کا علم تو بس اتنا ہی ہے جتنا اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ انبیاء کو عطا کیا یا پھر انسان نے خود بعض اشیاء پر تجربے کر کے حاصل کرلیا ہے اور یہ ایسا ہی ہے جیسے سمندر کے مقابلہ میں پانی کی ایک بوند۔