وَأَنَّ السَّاعَةَ آتِيَةٌ لَّا رَيْبَ فِيهَا وَأَنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ مَن فِي الْقُبُورِ
اور (اس لیے) کہ بے شک قیامت آنے والی ہے، اس میں کوئی شک نہیں اور (اس لیے) کہ یقیناً اللہ ان لوگوں کو اٹھائے گا جو قبروں میں ہیں۔
[٧] ان آیات میں چند در چند حقائق بیان ہوئے ہیں جو یہ ہیں : (١) اللہ تعالیٰ کی ہستی ایک ٹھوس حقیقت ہے۔ وہ علیم و خبیر ہستی ہے۔ کائنات میں جملہ تصرفات اسی کی حکمت اور قدرت کے تحت واقع ہو رہے ہیں۔ (٢) وہ مردہ اشیاء سے زندہ اشیا کو پیدا کرسکتا ہے۔ پھر زندہ اشیاء کو مردہ اشیاء میں تبدیل کرتا ہے اور پھر انھیں زندگی بخش سکتا ہے مثلاً انسان کو اس نے ایک مشت خاک سے پیدا کیا ہے۔ پھر انسان کا نطفہ بھی بے جان اشیاء سے بنتا ہے۔ جس میں زندگی پیدا ہوجاتی ہے۔ علاوہ ازیں انسان کا جسم اور اس کی غذائیں جن مادوں سے مرکب ہیں وہ سب بے جان مادے ہیں۔ مثلاً انسانی جسم اور اس کی غذائیں سب کچھ نمکیات لوہا، چونا، کوئلہ اور چند گیسوں سے مرکب ہے۔ انھیں ہی ترکیب دے کر اللہ نے جیتے جاگتے انسان پیدا کردیئے۔ پھر مرنے کے بعد یہی انسانی جسم مٹی میں تحلیل ہوجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس بات پر پوری قدرت رکھتا ہے کہ انھیں بے جان مادوں سے انسان کو نئے سرے سے پیدا کر دے۔ (٣)صفات الٰہی سےا خروی زندگی پردلائل :۔ تیسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ اگر اسے اسی قدرت حاصل نہ ہوگی تو وہ ہرگز ایسے کام نہیں کرسکتا تھا۔ پھر ان کاموں میں اس کی حکمت کو بھی خاصا دخل ہے۔ مثلاً اس نے اگر نطفہ کے جراثیم میں انسان بننے کی استعداد رکھی ہے تو اس کے ساتھ ہی ساتھ پیدا ہونے والے بچہ میں اپنے والدین کی شکل، عقل اور قوت جسمانی کا بھی عکس موجود ہوتا ہے۔ اور ان باتوں میں نومولود کی اپنے والدین سے کافی حد تک مشابہت بھی پائی جاتی ہے۔ گویا مادہ کے علاوہ والدین کی پوشیدہ قوتیں بھی جنس میں منتقل ہوجاتی ہیں اور ان کا ظہور بچہ کے بالغ ہونے پر ہوتا ہے۔ (٤) اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس کائنات میں بے مقصد پیدا نہیں کیا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو قوت ارادہ و اختیار اور قوت تمیز و عقل اس لئے عطا کی ہے کہ آیا وہ اس کائنات میں اللہ کا فرمانبردار بندہ بن کر رہتا ہے یا نافرمان اور باغی بن کر زندگی گزارتا ہے۔ انسان کی اپنی یہ حالت ہے کہ جب وہ کسی کو کوئی ذمہ داری سونپتا ہے یا اجرت پر کوئی مزدور یا غلام رکھتا ہے تو اس کا محاسبہ بھی کرتا ہے لہٰذا یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بات کا بھی محاسبہ کرے کہ کون شخص اس کا حکم بجا لاتا ہے اور کون اس کی حکم عدولی کرتا ہے۔ اسی محاسبہ کے لئے اخروی زندگی کا قیام ضروری ہے اور یہی عقل و حکمت اور عدل کا تقاضا ہے اور دنیا کی مختصر سی زندگی چونکہ اعمال کی جزا و سزا کے لئے بالکل ناکافی ہے۔ لہٰذا اس لحاظ سے بھی قیامت اور روز جزا کا قیام ضروری ہے۔