ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّهُ يُحْيِي الْمَوْتَىٰ وَأَنَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
یہ اس لیے ہے کہ بے شک اللہ ہی حق ہے اور (اس لیے) کہ بے شک وہی مردوں کو زندہ کرے گا اور (اس لیے) کہ بے شک وہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔
[٦] اللہ کے حق ہونے کےتین مطلب :۔ اس جملہ کے تین مطلب ہوسکتے ہیں اور تینوں ہی درست ہیں۔ ایک یہ کہ یہاں حق کا معنی سچا ہے۔ یعنی ان دونوں مثالوں سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بعث بعدالموت کو حتمی اور یقینی قرار دے رہا ہے تو اس کی بات بالکل سچی ہے۔ دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ کی اپنی ذات ایک ٹھوس حقیقت ہے۔ اس کا وجود کوئی فرضی وجود نہیں جسے عقلی اشکالات کی وجہ سے تسلیم کرلیا گیا ہو جیسا کہ فلاسفروں کا خیال ہے جو علت و معلول کی کڑیاں جوڑتے جوڑتے جب عاجز آجاتے ہیں تو ایک ہستی کو واجب الوجود یا علت العلل (First Cause) تسلیم کرنے لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ ایک زندہ جاوید ہستی ہے جو ہر چیز میں اپنی مرضی سے تصرف کرتا ہے اور ہر چیز پر کنٹرول رکھے ہوئے ہے اور تیسرے یہ کہ اس کائنات میں جو کچھ ظہور پذیر ہو رہا ہے وہ ٹھوس حقائق پر مبنی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ ساری کائنات اور اس کائنات میں ظہور پذیر ہونے والے واقعات کو محض تفریح طبع کے لئے پیدا نہیں کیا۔ اور ان تینوں معانی پر قرآن کی دوسری بے شمار آیات شاہد ہیں۔