سورة البقرة - آیت 253

تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۘ مِّنْهُم مَّن كَلَّمَ اللَّهُ ۖ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَاتٍ ۚ وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ ۗ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِينَ مِن بَعْدِهِم مِّن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَلَٰكِنِ اخْتَلَفُوا فَمِنْهُم مَّنْ آمَنَ وَمِنْهُم مَّن كَفَرَ ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا اقْتَتَلُوا وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

یہ رسول، ہم نے ان کے بعض کو بعض پر فضیلت دی، ان میں سے کچھ وہ ہیں جن سے اللہ نے کلام کیا اور ان کے بعض کو اس نے درجوں میں بلند کیا اور ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو واضح نشانیاں دیں اور اسے پاک روح کے ساتھ قوت بخشی۔ اور اگر اللہ چاہتا تو جو لوگ ان کے بعد تھے آپس میں نہ لڑتے، اس کے بعد کہ ان کے پاس واضح نشانیاں آ چکیں اور لیکن انھوں نے اختلاف کیا تو ان میں سے کوئی تو وہ تھا جو ایمان لایا اور ان سے کوئی وہ تھا جس نے کفر کیا اور اگر اللہ چاہتا تو وہ آپس میں نہ لڑتے اور لیکن اللہ کرتا ہے جو چاہتا ہے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٣٥٦]انبیاء کی ایک دوسرے پرفضیلت:۔ انبیاء و رسل کی سب سے بڑی فضیلت تو یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں نبوت و رسالت عطا فرمائی۔ اس لحاظ سے ان میں کوئی فرق نہیں اور یہی وہ چیز ہے جس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے کسی پیغمبر پر فضیلت نہ دو۔ نیز فرمایا کہ کسی پیغمبر کو کسی دوسرے پر فضیلت نہ دو۔ حتیٰ کہ یونس بن متی پر بھی (بخاری، کتاب التفسیر) رہی جزوی فضیلتیں تو اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے کسی رسول کو کسی ایک فضیلت سے نوازا اور دوسرے کو کسی دوسری فضیلت سے جیسا کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بعض انبیاء کے فضائل خود ہی ذکر فرما دیئے اور یہاں فضائل سے مراد دراصل خصائص یا مخصوص معجزات ہیں جو دوسروں کو عطا نہیں ہوئے۔ مثلاً موسیٰ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں اور اس زمین پر براہ راست کلام کیا جو اور کسی نبی سے نہیں کیا۔ اسی طرح عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کرتے اور مٹی کے پرندے بناکر ان میں روح پھونک کر اڑا دیتے تھے۔ [٣٥٧] اختلاف اور باہمی لڑائی جھگڑے کی اصل بنیاد انسان میں قوت ارادہ و اختیار ہے۔ اگر انسان اس قوت و اختیار کو اللہ کی مرضی کے تابع بنا دے تو یہ ایمان ہے اور یہی اسلام ہے اور اگر اس کا آزادانہ استعمال کرنا شروع کر دے اور اللہ کے احکام کی پروا نہ کرے تو یہی کفر ہے۔ [٣٥٨] مشیت الٰہی اور لوگوں کے لڑائی جھگڑے :۔ یعنی اللہ کی مشیت یہ ہے کہ انسان کو قوت ارادہ دی جائے، پھر دیکھا جائے کہ کون اس کو درست استعمال کرتا ہے اور کون غلط؟ اور جو لوگ اس کا غلط استعمال کرتے ہیں وہی آپس میں اختلاف کرتے اور لڑائی جھگڑے کرتے رہتے ہیں اور اگر اللہ چاہتا تو انسان کو یہ قوت ہی نہ دیتا، پھر نہ کوئی اختلاف ہوتا اور نہ لڑائی جھگڑا۔ بس سب کے سب مومن ہوتے۔ لیکن ایسا ایمان اضطراری ہوتا اختیاری نہ رہتا۔ جب کہ مشیت الٰہی یہ ہے کہ لوگ اپنے اختیار سے ایمان لائیں یا کفر کریں۔