حَتَّىٰ إِذَا فُتِحَتْ يَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ وَهُم مِّن كُلِّ حَدَبٍ يَنسِلُونَ
یہاں تک کہ جب یاجوج اور ماجوج کھول دیے جائیں گے اور وہ ہر اونچی جگہ سے دوڑتے ہوئے آئیں گے۔
[٨٦]یاجوج ماجوج کی پورش اور علا مات قیامت:۔ اس آیت کا سابقہ آیت سے ربط یہ ہے کہ جس دن یاجوج ماجوج کو کھول دیا جائے گا اور قیامت قائم ہوجائے گی۔ اس وقت لازماً ان تباہ شدہ بستی والوں کو ہمارے حضور پیش ہونا پڑے گا۔ یہ ناممکن ہے کہ وہ ہمارے حضور پیش نہ ہوں۔ اس لحاظ سے پہلا مطلب ہی زیادہ درست معلوم ہوتا ہے۔ یاجوج ماجوج کے کچھ حالات تو سورۃ کہف کی آیت نمبر ٩٤ کے تحت مذکور ہوئے ہیں۔ مزید یہ کہ سد ذوالقرنین کا زمین بوس ہونا اور یاجوج ماجوج کا حملہ آور ہونا قرب قیامت کی علامات میں سے ایک علامت ہے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : حضرت حذیفہ بن اسید غفاری کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم آپس میں قیامت کے متعلق باتیں کر رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ : قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک تم یہ دس نشانیاں نہ دیکھ لو گے۔ پھر آپ نے بالترتیب ان سب کا ذکر فرمایا۔ دھواں، دجال کا خروج، دابۃالارض کا ظاہرہونا، آفتاب کا مغرب سے طلوع ہونا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول، یاجوج ماجوج کی یورش، تین مقامات پر زمین کا دھنس جانا، مشرق میں، مغرب میں اور جزیرہ عرب میں اور ان نو نشانیوں کے بعد ایک آگ پیدا ہوگی جو لوگوں کو یمن سے نکالے گی اور انھیں ان کے اجتماع کے مقان (شام) کی طرف لے جائے گی۔ (مسلم، کتاب الفتن و شرائط الساعۃ) اور جب یہ دیوار ٹوٹے گی تو یاجوج ماجوج یوں حملہ آور ہوں گے جیسے کوئی شکاری جانور قفس سے آزاد ہو کر اپنے شکار پر جھپٹتا ہے یہ لوگ اپنی کثرت اور اژدھام کی وجہ سے ہر بلندی و پستی پر چھا جائیں گے۔ جدھر دیکھو انہی کا ہجوم نظر آئے گا۔ ان کا بے پناہ سیلاب ایسی شدت اور تیز فتاری سے آئے گا کہ کوئی انسانی طاقت اسے روک نہ سکے گی۔ یوں معلوم ہوگا کہ ان کی افواج پہاڑ اور ٹیلوں سے پھسلتی اور لڑھکتی چلی آرہی ہیں۔ اور یہ بھی ضروری نہیں کہ یاجوج ماجوج دونوں قومیں آپس میں متحد ہو کر ایسی شورش بپا کریں۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ یہ دونوں قومیں آپس میں ہی بھڑ جائیں پھر ان کی لڑائی ایک عالمگیر فساد کا موجب بن جائے۔