فَاسْتَجَبْنَا لَهُ فَكَشَفْنَا مَا بِهِ مِن ضُرٍّ ۖ وَآتَيْنَاهُ أَهْلَهُ وَمِثْلَهُم مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنْ عِندِنَا وَذِكْرَىٰ لِلْعَابِدِينَ
تو ہم نے اس کی دعا قبول کرلی، پس اسے جو بھی تکلیف تھی دور کردی اور اسے اس کے گھر والے اور ان کے ساتھ ان کی مثل (اور) عطا کردیے، اپنے پاس سے رحمت کے لیے اور ان لوگوں کی یاددہانی کے لیے جو عبادت کرنے والے ہیں۔
[٧٤] چشمہ کاظہور اور اس میں نہانے سے صحت کی بحالی :۔ جب حضرت ایوب علیہ السلام اس صبر کے امتحان میں بھی پوری طرح کامیاب ہوگئے تو رحمت باری جوش میں آگئی۔ آپ کی یہی بے مطالبہ دعا یوں مقبول ہوئی کہ اللہ نے اسی مقام پر ایک چشمہ رواں کردیا۔ آپ کو صرف یہی حکم ہوا کہ اپنا پاؤں زمین پر مارو۔ پاؤں مارنے کی دیر تھی کہ چشمہ پھوٹ پڑا۔ جس کا پانی میٹھا، ٹھنڈا، شفا بخش اور جلدی امراض کو دور کرنے والا تھا۔ آپ اس میں غسل فرمایا کرتے اور اسی کا پانی لیتے رہے۔ آپ کی بیماری، جلد کی بیماری تھی۔ جو اس طرح غسل کرنے اور پانی ملتے رہنے سے جلد ہی دور ہوگئی اور جتنا مال و دولت اور آل اولاد اللہ تعالیٰ نے آپ کو پہلے عطا فرمائی تھی۔ اس سے دگنی عطا فرما دی اور یہ اللہ کی رحمت اور آپ کے صبر کا پھل تھا۔ [٧٥] عبادت گزاری کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ انسان خوشحالی کے دور میں اللہ کا شکر بجا لاتا رہے اور تنگی اور تنگدستی کے دور میں صبر و استقامت سے کام لے۔ جیسا کہ حضرت ایوب علیہ السلام نے نمونہ پیش کیا تھا اس جملہ میں سبق یہ ہے کہ جو شخص بھی اس طرح اللہ کا عبادت گزار بنتا ہے۔ ایوب علیہ السلام کی طرح اللہ تعالیٰ اسے بھی پہلے سے زیادہ انعامات سے نوازتا ہے۔