فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوتُ بِالْجُنُودِ قَالَ إِنَّ اللَّهَ مُبْتَلِيكُم بِنَهَرٍ فَمَن شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَن لَّمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي إِلَّا مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَةً بِيَدِهِ ۚ فَشَرِبُوا مِنْهُ إِلَّا قَلِيلًا مِّنْهُمْ ۚ فَلَمَّا جَاوَزَهُ هُوَ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ قَالُوا لَا طَاقَةَ لَنَا الْيَوْمَ بِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ ۚ قَالَ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلَاقُو اللَّهِ كَم مِّن فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ
پھر جب طالوت لشکروں کو لے کر جدا ہوا تو کہا بے شک اللہ ایک نہر کے ساتھ تمھاری آزمائش کرنے والا ہے، پس جس نے اس میں سے پیا تو وہ مجھ سے نہیں اور جس نے اسے نہ چکھا تو بے شک وہ مجھ سے ہے، مگر جو اپنے ہاتھ سے ایک چلو بھر پانی لے لے۔ تو ان میں سے تھوڑے لوگوں کے سوا سب نے اس سے پی لیا۔ تو جب وہ اور اس کے ساتھ وہ لوگ نہر سے پار ہوگئے جو ایمان لائے تھے، تو انھوں نے کہا آج ہمارے پاس جالوت اور اس کے لشکروں سے مقابلے کی کوئی طاقت نہیں۔ جو لوگ سمجھتے تھے کہ یقیناً وہ اللہ سے ملنے والے ہیں انھوں نے کہا کتنی ہی تھوڑی جماعتیں زیادہ جماعتوں پر اللہ کے حکم سے غالب آگئیں اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
[٣٤٨] طالوت کی سرکردگی میں جہاد:۔ چنانچہ بادشاہ طالوت کی قیادت میں بنی اسرائیل کا ایک لشکر جرار جالوت کے مقابلہ میں نکل کھڑا ہوا۔ طالوت نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ جس نے بزدلی دکھانا ہو وہ ہمارے ساتھ نہ نکلے۔ بنی اسرائیل زبانی باتوں میں بڑے دلیر تھے۔ چنانچہ ان کی تعداد ستر ہزار ہوگئی راستہ میں ایک منزل پر پانی نہ ملا تو طالوت سے شکایت کی۔ طالوت نے کہا آگے ایک نہر آتو رہی ہے مگر تم لوگ اس میں سے سیر ہو کر پانی نہ پینا، صرف ایک آدھ گھونٹ پی لینا اور یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے آزمائش ہے۔ کہ اگر تم اپنی پیاس بھی برداشت نہ کرسکے تو لڑائی میں کیا کارنامے سر انجام دو گے؟ لہٰذا میں تو صرف اس آدمی کو اپنے ساتھ لے جاؤں گا جو اپنی پیاس کو برداشت کرے گا۔ چنانچہ جب وہ نہر آئی تو سب نے سیر ہو کر پانی پی لیا اور بعضوں نے تو منہ ہی نہر میں ڈال دیا اور مویشیوں کی طرح پینے لگے۔ اس طرح یکدم کثیر مقدار میں پانی پینے سے ان کے بدن ٹوٹنے لگے اور تھوڑا سا فاصلہ چل کر گر پڑے اور کہنے لگے کہ اب ہمیں جالوت اور اس کے لشکر سے لڑنے کی تاب نہیں رہی۔ [٣٤٩]طالوت کے لشکر کی تعداد:۔ اور جن لوگوں نے اپنی پیاس برداشت کی تھی ان کی تعداد صرف تین سو تیرہ یا اس کے لگ بھگ تھی۔ انہیں صبر کرنے والوں میں بوڑھے نبی سموئیل، حضرت داؤد، ان کے باپ اور ان کے چھ بھائی شامل تھے اور بروایت براء بن عازب یہ وہی تعداد باقی رہ گئی تھی جتنی اصحاب بدر کی تھی (بخاری، کتاب المغازی، باب عدۃ اصحاب بدر) کجا ان زبانی شیخی بگھارنے والوں کی تعداد ستر ہزار تھی اور کجا ان میں سے خالص تین سو تیرہ رہ گئے، یعنی ہر دو ہزار میں سے صرف نو آدمی سچے مجاہد ثابت ہوئے۔ ان لوگوں کے حوصلے بلند تھے۔ صبر کرنے والے اور توکل کرنے والے تھے۔ وہ آپس میں کہنے لگے کہ اگر ہم تھوڑے سے باقی رہ گئے ہیں تو کوئی بات نہیں فتح و شکست اور زندگی اور موت سب اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ اللہ تھوڑی سی صبر کرنے والی جماعت کو بہت بڑے لشکر کے مقابلہ میں فتح عطا کردیتا ہے کیونکہ اللہ کی مدد ان کے شامل حال ہوتی ہے۔