سورة الأنبياء - آیت 52

إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ مَا هَٰذِهِ التَّمَاثِيلُ الَّتِي أَنتُمْ لَهَا عَاكِفُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

جب اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا کیا ہیں یہ مورتیاں جن کے تم مجاور بنے بیٹھے ہو؟

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٤٧] یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہوش مندی کا تقاضا تھا کہ جب انہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم کے لوگوں کو بے جان اور ساکت و صامت بتوں کے سامنے سجدہ ریز دیکھا تو فوراً دل میں سوچنے لگے کہ ان بے جان پتھروں کے سامنے، جو نہ حرکت کرسکتے ہیں، نہ سنتے ہیں، نہ بولتے ہیں۔ سجدہ کرنے کا فائدہ کیا ہے؟ ایسی چیزوں کو سجدہ کرنا تو سراسر انسانیت کی توہین اور تذلیل ہے۔ قوم کی اس انسانیت سوز حرکت پر وہ مدتوں دل ہی دل میں کڑہتے اور نفرت کرتے رہے۔ بالآخر انہوں نے اپنے طبیعت کے تقاضا سے مجبور ہو کر اپنے باپ اور اپنی قوم سے یہ سوال کر ہی دیا کہ مجھے بھی تو کچھ بتلاؤ کہ جن بے جان مورتیوں کے سامنے تم بیٹھ کر ان کی عبادت میں مشغول رہتے ہو اس کا فائدہ کیا ہے؟