وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ اللَّهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِكًا ۚ قَالُوا أَنَّىٰ يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِّنَ الْمَالِ ۚ قَالَ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ ۖ وَاللَّهُ يُؤْتِي مُلْكَهُ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ
اور ان سے ان کے نبی نے کہا بے شک اللہ نے تمھارے لیے طالوت کو بادشاہ مقرر کیا ہے۔ انھوں نے کہا اس کی حکومت ہم پر کیسے ہو سکتی ہے، جبکہ ہم حکومت کے اس سے زیادہ حق دار ہیں اور اسے مال کی کوئی وسعت بھی نہیں دی گئی؟ فرمایا بے شک اللہ نے اسے تم پر چن لیا ہے اور اسے علم اور جسم میں زیادہ فراخی عطا فرمائی ہے اور اللہ اپنی حکومت جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ وسعت والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔
[٣٤٥]حکمران کی لازمی صفات:۔ چنانچہ بنی اسرائیل کے مطالبہ پر اللہ تعالیٰ نے طالوت کو ان کا بادشاہ مقرر کیا جو ایک تیس سالہ جوان، خوبصورت اور قد آور شخص تھا۔ اس پر کئی لوگوں نے یہ اعتراض جڑ دیا کہ ’’طالوت کے پاس نہ مال و دولت ہے اور نہ شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ، بھلا یہ ہمارا بادشاہ کیسے بن سکتا ہے؟ اس سے تو ہم ہی اچھے اور بادشاہت کے زیادہ حقدار ہیں۔‘‘ اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا کہ قیادت کے لیے مال و دولت کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ طالوت میں موجود ہیں اور تم سے بہت زیادہ ہیں۔ لہٰذا تمہیں فضول قسم کی کٹ حجتیوں سے باز آنا چاہیے۔