سورة البقرة - آیت 246

أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِن بَنِي إِسْرَائِيلَ مِن بَعْدِ مُوسَىٰ إِذْ قَالُوا لِنَبِيٍّ لَّهُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِكًا نُّقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۖ قَالَ هَلْ عَسَيْتُمْ إِن كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ أَلَّا تُقَاتِلُوا ۖ قَالُوا وَمَا لَنَا أَلَّا نُقَاتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَقَدْ أُخْرِجْنَا مِن دِيَارِنَا وَأَبْنَائِنَا ۖ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْا إِلَّا قَلِيلًا مِّنْهُمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

کیا تو نے موسیٰ کے بعد بنی اسرائیل کے سرداروں کو نہیں دیکھا، جب انھوں نے اپنے ایک نبی سے کہا ہمارے لیے ایک بادشاہ مقرر کر کہ ہم اللہ کے راستے میں لڑیں۔ اس نے کہا یقیناً تم قریب ہو کہ اگر تم پر لڑنا فرض کردیا جائے تو تم نہ لڑو۔ انھوں نے کہا اور ہمیں کیا ہے کہ ہم اللہ کے راستے میں نہ لڑیں، حالانکہ ہمیں ہمارے گھروں اور ہمارے بیٹوں سے نکال دیا گیا ہے۔ پھر جب ان پر لڑنا فرض کردیا گیا تو ان میں سے بہت تھوڑے لوگوں کے سوا سب پھر گئے اور اللہ ان ظالموں کو خوب جاننے والا ہے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٣٤٣]بنی اسرائیل میں سیادت انبیاء یعنی نظام خلافت :۔ بنی اسرائیل میں یہ دستور رہا ہے کہ ان کے حکمران بھی انبیاء ہی ہوا کرتے تھے۔ انہیں کے پاس مقدمات کے فیصلے ہوتے اور انہیں کی سر کردگی میں جہاد کیا جاتا تھا۔ گویا ان لوگوں میں صحیح نظام خلافت رائج تھا اور یہی وہ سیاسی نظام ہے جو اسلام کا جزولاینفک ہے۔ مگر ان لوگوں نے دوسرے ممالک کی دیکھا دیکھی جن میں نظام ملوکیت رائج تھا۔ اپنے بوڑھے نبی سموئیل علیہ السلام سے مطالبہ کردیا کہ ہمارے لیے ایک بادشاہ مقرر کر دو تاکہ ہم اس کی قیادت میں جہاد کریں اور حقیقتاً ان کا یہ مطالبہ محض جہاد سے راہ فرار کی ایک صورت تھی جو ان کی بزدلی پر دلالت کرتی تھی۔ جسے انہوں نے اس رنگ میں پیش کیا کہ تم تو بوڑھے ہوگئے اور ہمیں ایک نوجوان قائد درکار ہے اور قائدان کی مادہ پرست نظروں میں وہی ہوسکتا تھا جو بادشاہوں کی طرح کا ٹھاٹھ باٹھ رکھتا ہو۔ [٣٤٤] ان کے نبی سموئیل کو چونکہ اصل مرض کا علم تھا۔ لہٰذا اس نے ان سے پختہ عہد لیا کہ اگر بادشاہ مقرر کردیا جائے تو پھر تو جہاد سے راہ فرار اختیار نہ کرو گے؟ جس کے جواب میں انہوں نے یقین دلایا کہ ہم ہرگز ایسا نہیں کریں گے اور کر بھی کیسے سکتے ہیں جبکہ ہم پہلے ہی بے گھر ہوچکے ہیں۔ دشمنوں نے ہمارے ملک چھین لیے، ہمارے بیوی بچوں کو لونڈی غلام بنا رکھا ہے۔ لہٰذا ہم کیوں نہ ان سے لڑیں گے۔ لیکن اس کے باوجود جب ان پر جہاد فرض ہوا تو مختلف حیلوں بہانوں اور کٹ حجتیوں سے اپنے کئے ہوئے عہد سے پھرنے لگے۔