سورة الأنبياء - آیت 30

أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا ۖ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۖ أَفَلَا يُؤْمِنُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور کیا جن لوگوں نے کفر کیا یہ نہیں دیکھا کہ بے شک سارے آسمان اور زمین آپس میں ملے ہوئے تھے تو ہم نے انھیں پھاڑ کر الگ کیا اور ہم نے پانی سے ہر زندہ چیز بنائی، تو کیا یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٢٥] رتق اور فتق کا لغوی مفہوم :۔ اس آیت میں رتق اور فتق کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ اور یہ دونوں الفاظ ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ رتق کے معنی دو چیزوں یا کئی چیزوں کا مل کر جڑ جانا اور چیدہ ہونا ہے اور فتق کے معنی ایسی گڈ مڈ شدہ اور جڑی ہوئی چیزوں کو الگ الگ کردیتا ہے۔ اس آیت میں کائنات کا نقطہ آغاز بیان کیا گیا ہے کہ ابتداء صرف ایک گڈ مڈ اور کئی چیزوں سے مخلوط مادہ تھا۔ اسی کو کھول کر اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان اور دوسرے اجرام فلکی کو پیدا فرمایا۔ [٢٦] ہرچیز کی تخلیق پانی سے ہے :۔ ہر وہ چیز جس میں زندگی کے آثار پائے جاتے ہوں اس کی زندگی کا سبب پانی ہی ہوتی ہے اور اس میں نباتات، حیوانات سب شامل ہیں۔ اور ایسی تمام اشیاء پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتیں۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ ہم نے ہر جاندار کو پانی سے پیدا کیا ہے جیسے فرمایا : ﴿وَاللّٰہُ خَلَقَ کُلَّ دَابَّۃٍ مِّنْ مَّاءٍ ﴾(۲۴:۴۵) اس لحاظ سے اس کا یہ مطلب ہوگا کہ ہر چیز کی پیدائش میں پانی کی موجودگی ضروری ہے اگرچہ یہ غالب عنصر کے طور پر نہ ہو۔ جیسے انسان کی پیدائش میں غالب عنصر مٹی ہے اور جنوں کی پیدائش میں آگ۔ اور اس کا تیسرا مطلب یہ ہے کہ تمام موجودات میں پانی کا عنصر شامل ہوتا ہے۔ جیسا کہ کتاب و سنت میں یہ صراحت میں ہے کہ ایک وقت ایسا تھا جب صرف پانی ہی پانی تھا اور اس پر اللہ کا عرش تھا اور پانی کے علاوہ کوئی دوسری چیز موجود نہ تھی۔ پھر ہر طرح کی تخلیق کا آغاز پانی سے ہی ہوا۔ حتیٰ کہ جمادات میں بھی پانی کا کچھ نہ کچھ حصہ موجود ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ جڑی ہوئی ہے اگر اس سے پانی کو ختم کردیا جائے تو وہ چیز ریزہ ریزہ ہوجائے گی۔