قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِي أَعْمَىٰ وَقَدْ كُنتُ بَصِيرًا
کہے گا اے میرے رب! تو نے مجھے اندھا کر کے کیوں اٹھایا ؟ حالانکہ میں تو دیکھنے والا تھا۔
[٩١] اعمال کا بدلہ ممثل شکل میں :۔ یعنی اس کا اعتراض یہ تھا کہ دنیا میں تو میں بینا تھا اور ہر چیز کو دیکھ سکتا تھا۔ آج مجھے اندھا بنا کر کیوں اٹھایا جارہا ہے۔ اس کو جواب یہ دیا جائے گا کہ تو دنیا میں میری آیات دیکھنے سے اندھا بنا رہا تھا۔ آنکھیں عطا کرنے کا مقصد صرف یہی نہیں تھا کہ تو اپنے مطلب کی چیزیں دیکھے۔ بلکہ اصل مطلب یہ تھا کہ تو اللہ کی آیات کو دیکھے۔ اس لحاظ سے تو دنیا میں اندھا ہی بنا رہا۔ تیرے اس فعل کا نتیجہ ہی مثل شکل میں تیرے سامنے آیا ہے۔ تو اب تعجب کیوں کرتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ ابتدائے حشر کا ذکر ہے۔ بعد میں اس کی آنکھیں کھول دی جائیں گی تو وہ دوزخ اور اموال محشر کا ٹھیک ٹھیک معائنہ کرسکے گا۔