قَالَ اهْبِطَا مِنْهَا جَمِيعًا ۖ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۖ فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَىٰ
فرمایا تم دونوں اکٹھے اس سے اتر جاؤ، تم میں سے بعض بعض کا دشمن ہے، پھر اگر کبھی واقعی تمھارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت آئے تو جو میری ہدایت کے پیچھے چلا تو نہ وہ گمراہ ہوگا اور نہ مصیبت میں پڑے گا۔
[٨٨]کون کس کا دشمن ؟ فریق کون کون ہیں ؟ اس مقام پر تثنیہ استعمال ہوا ہے۔ جس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ایک مطلب ترجمہ میں واضح ہے کہ ایک فریق آدم و حوا تھے اور دوسرا فریق شیطان اور خطاب کے لحاظ سے ان فریقوں میں ان کی اولاد بھی شامل ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ ایک فریق آدم، دوسرا حوا ہو، جمیعاً کا معنی سب کے بجائے ’’مل کر، اکٹھے یا ایک ساتھ‘‘ کیا جائے، اور خطاب آدم و حوا کی اولاد سے ہو۔ اور ان کی اولاد میں دشمنی اس طرح ہوگی کہ ان کی اولاد میں سے ایک فریق اللہ کا فرمانبردار بن کر رہے گا اور دوسرا شیطان کا تابع فرمان۔ ان دونوں فریقوں میں حق و باطل کی جنگ جاری اور دشمنی قائم رہے گی۔ ] ـ٨٩] یشقیٰ کے بھی دو مطلب ہیں ایک یہ کہ وہ جنت کی راہ سے بہکے گا نہیں اور نہ اس سے محروم ہو کر دوزح کی تکلیفیں اٹھائے گا۔ بلکہ سیدھا جنت میں پہنچ جائے گا جو اس کا اصل وطن تھا اور اس لفظ کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ بدبختی میں مبتلانہ ہوگا۔ دنیا میں بھی اس کا مقدر اسے ضرور ملے گا اور آخرت میں تو وہ بہرحال خوش نصیب ہوگا۔