يَوْمَ يُنفَخُ فِي الصُّورِ ۚ وَنَحْشُرُ الْمُجْرِمِينَ يَوْمَئِذٍ زُرْقًا
جس دن صور میں پھونکا جائے گا اور ہم مجرموں کو اس دن اس حال میں اکٹھا کریں گے کہ نیلی آنکھوں والے ہوں گے۔
[٧١] صورکےمعنیٰ اور اس کی ترقی یافتہ شکلیں :۔ صور کے معنی قرنا، نرسنگھا اور بوق ہے اور یہ چیزیں دور نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں رائج تھیں۔ ضروری نہیں کہ صور کی بھی یہی شکل و صورت ہو بلکہ قرآن ایسے لفظ استعمال کرتا ہے۔ جس سے انسانی ذہن اس اصل چیز سے قریب تر کسی چیز سے متعارف ہو۔ بعد میں اس غرض کے لئے فوج میں بگل استعمال ہوتا ہے جس سے لشکر کو اکٹھا یا منتشر کیا جاتا ہے۔ ہوائی حملہ کے خطرہ کے دوران سائرن بھی اسی سے ملتی جلتی چیز ہے۔ روزہ کو بند کرنے اور کھولنے کے وقت بھی سائرن کا استعمال ہوتا ہے۔ بس اسی سے ملتی جلتی یا اس سے بھی ترقی یافتہ شکل نفخہ صور کی ہوگی۔ [٧٢] اس کا ایک معنی تو یہ ہے کہ جب دہشت کے مارے آنکھیں پتھرا جاتی ہیں تو ان پر نیلگوں سفیدی غالب آجاتی ہے۔ اور دوسرا معنی یہ ہے کہ سارا بدن ہی نیلگوں ہوجائے گا۔ یعنی دہشت کے مارے خون تو خشک ہوجائے گا اور جسم پر نیلاہٹ غالب آنے لگے گی۔