قَالَ فَاذْهَبْ فَإِنَّ لَكَ فِي الْحَيَاةِ أَن تَقُولَ لَا مِسَاسَ ۖ وَإِنَّ لَكَ مَوْعِدًا لَّن تُخْلَفَهُ ۖ وَانظُرْ إِلَىٰ إِلَٰهِكَ الَّذِي ظَلْتَ عَلَيْهِ عَاكِفًا ۖ لَّنُحَرِّقَنَّهُ ثُمَّ لَنَنسِفَنَّهُ فِي الْيَمِّ نَسْفًا
کہا پس جاکہ بے شک تیرے لیے زندگی بھر یہ ہے کہ کہتا رہے ’’ہاتھ نہ لگانا‘‘ اور بے شک تیرے لیے ایک اور بھی وعدہ ہے جس کی خلاف ورزی تجھ سے ہرگز نہ کی جائے گی اور اپنے معبود کو دیکھ جس پر تو مجاور بنا رہا، یقیناً ہم اسے ضرور اچھی طرح جلائیں گے، پھر یقیناً اسے ضرور سمندر میں اڑا دیں گے، اڑانا اچھی طرح۔
[٦٧] سامری کی دنیامیں سزا:۔ یعنی اس کو موسیٰ علیہ السلام نے اچھوت قرار دے دیا کہ کوئی شخص اس سے کسی قسم کا بھی تعلق نہ رکھے۔ پھر اس کے لئے مزید سزا یہ تھی کہ وہ خود دوسروں سے کہتا تھا کہ مجھ سے پرے رہنا، مجھ سے بچ کر رہنا، مجھے ہاتھ نہ لگانا، میں ناپاک ہوں لہٰذا مجھے نہ چھونا۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ اگر کوئی سامری کو ہاتھ لگاتا یا اسے چھوتا تو سامری کو اور چھونے والے کو دونوں کو تپ چڑھ جاتی تھی۔ لہٰذا سامری اس بات پر مجبور تھا کہ دوسروں سے کہے کہ مجھے ہاتھ نہ لگانا، ساتھ ہی موسیٰ علیہ السلام نے اسے یہ بھی بتلا دیا کہ یہ نہ سمجھنا کہ تمہارے اس جرم کی سزا پوری ہو چکی بلکہ آخرت میں جو تجھے عذاب ہونے والا ہے وہ بھی کبھی ٹل نہ سکے گا۔ ] ـ٦٨] یہ تو رہا تیرا انجام اور اب ہم تیرے الٰہ کا جس کا تو دن رات مجاور بن بیٹھا رہتا تھا، یہ حشر کرنے والے ہیں کہ اس سونے اور مٹی کے بت کے ہم پہلے ٹکڑے ٹکڑے کریں گے پھر ان کو جلا کر راکھ بنا دیں گے۔ اور پھر اس راکھ کو دریا میں پھینک دیں گے تاکہ تجھے اور پیروکاروں سب کو یہ معلوم ہوجائے کہ جو خدا اپنی بھی حفاظت نہیں کرسکتا وہ دوسرے کا کیا سنوار سکتا ہے یا بگاڑ سکتا ہے؟