فَأَخْرَجَ لَهُمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّهُ خُوَارٌ فَقَالُوا هَٰذَا إِلَٰهُكُمْ وَإِلَٰهُ مُوسَىٰ فَنَسِيَ
پس اس نے ان کے لیے ایک بچھڑا نکالا، جو محض جسم تھا، اس کے لیے گائے کی آواز تھی، تو انھوں نے کہا یہی تمھارا معبود اور موسیٰ کا معبود ہے، سو وہ بھول گیا۔
[٦١]قوم کاگئوسالہ پرستی پرعذر لنگ :۔ قوم نے موسیٰ علیہ السلام کو ان کے سوالوں کا یہ جواب دیا کہ ہم نے عمدا ً کچھ ایسا قصد نہیں کیا تھا بلکہ ہوا یہ تھا کہ اس طویل سفر میں زیورات کا بوجھ ہمارے لئے ناقابل برداشت بن گیا تھا لہٰذا ہم چاہتے تھے کہ اس کے کہ ہمارے سب افراد یہ بوجھ اٹھائے رکھیں انھیں کیوں نہ اکٹھا کرکے پگھلا کر اس کی اینٹیں بنا لی جائیں تاکہ اس کی نقل و حرکت میں آسانی ہوجائے اور دوسرے سامان کے ساتھ گدھوں اور بیلوں پر لادا جاسکے۔ اور اس میں ہر ایک کے زیور کی مقدار الگ الگ لکھ لی جائے اور جب کہیں مقیم ہوں گے تو اپنے اپنے حصہ کا سونا پھر سے بانٹ کر زیور بنوائے جاسکتے ہیں۔ اس خیال سے ہم لوگوں نے بھی اپنے اپنے زیور اتار پھینکے اور اسی طرح سامری نے اپنا زیور اس مجموعہ میں شامل کردیا۔ سونے کو پگھلانے کا کام سامری کے ذمہ تھا۔ اس نے یہ شرارت کی کہ بجائے اس کے کہ زیورات کو پگھلا کر سونے کی اینٹیں بناتا، اس کو بچھڑے کی شکل دے دی۔ پھر کچھ ایسا کرتب دکھایا کہ اس بچھڑے سے بچھڑے کی سی آواز بھی نکلتی تھی اور کہنے لگا کہ حقیقتاً تو یہی تمہارا الٰہ ہے۔ جو سونا پگھلانے پر آپ سے آپ اس شکل میں نمودار ہوگیا ہے۔ یہ لوگ مصر میں چونکہ بڑی مدت فرعونیوں کی دیکھا دیکھی بیل کی پرستش کرتے رہے تھے اور ابھی تک ان کے ذہن میں پوری طرح صاف نہیں ہوئے تھے لہٰذا جاہل عوام نے فورا ً سامری کی آواز پر لبیک کہی اور کہنے لگے کہ اصل میں ہمارا اور موسیٰ کا بھی الٰہ تو یہ تھا۔ موسیٰ پتا نہیں طور پر کیا لینے گیا ہے؟ چنانچہ یہ معاملہ ہمارے اختیار سے باہر ہوگیا اور اکثریت کی دیکھا دیکھی ہمیں بھی یہی راہ اختیار کرنا پڑی۔