وَإِن طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ إِلَّا أَن يَعْفُونَ أَوْ يَعْفُوَ الَّذِي بِيَدِهِ عُقْدَةُ النِّكَاحِ ۚ وَأَن تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ ۚ وَلَا تَنسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
اور اگر تم انھیں اس سے پہلے طلاق دے دو کہ انھیں ہاتھ لگاؤ، اس حال میں کہ تم ان کے لیے کوئی مہر مقرر کرچکے ہو تو تم نے جو مہر مقرر کیا ہے اس کا نصف (لازم) ہے، مگر یہ کہ وہ معاف کردیں، یا وہ شخص معاف کر دے جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے اور یہ (بات) کہ تم معاف کر دو تقویٰ کے زیادہ قریب ہے اور آپس میں احسان کرنا نہ بھولو، بے شک اللہ اس کو جو تم کر رہے ہو، خوب دیکھنے والا ہے۔
[٣٣١]آپس میں قیاضی اورایثار کرنے کاسبق:۔ عورت یا اس کے ولی کی طرف سے یہی فیاضی کافی ہے کہ وہ خاوند کو وہ آدھا حق مہر بھی معاف کردیں جو اسے ادا کرنا بروئے حکم الٰہی لازم تھا اور خاوند کی طرف سے فیاضی یہ ہے کہ آدھے کی بجائے پورا ہی حق مہر ادا کر دے یا اگر ادا کرچکا ہے تو اس سے کچھ واپس نہ لے اور یہ تاکید اس لیے کی کہ اجتماعی زندگی میں خوشگواری پیدا کرنے کے لیے ایسا فیاضانہ برتاؤ ضروری ہے اگر ہر شخص اپنے قانونی حق پر ہی اڑا رہے تو اجتماعی زندگی کبھی خوشگوار نہیں ہو سکتی۔ حق مہر کی مختلف صورتیں اورمہر مثل:۔اب دیکھئے مطلقہ عورت کے حق مہر کی ادائیگی کے سلسلہ میں شرعی احکام کی رو سے ممکنہ صورتیں چار ہیں : (١) نہ مہر مقرر ہو اور نہ صحبت ہوئی ہو (٢) مہر مقرر ہوچکا ہو مگر صحبت نہ ہوئی ہو۔ ان دونوں صورتوں کا حکم ان دو آیات میں مذکور ہوچکا ہے (٣) مہر بھی مقرر ہو اور صحبت بھی ہوچکی ہو اور یہ سب سے عام صورت ہے۔ اس صورت میں مہر پورا دینا ہوگا۔ (٤) مہر مقرر نہ ہوا تھا مگر صحبت ہوچکی۔ اس صورت میں مہر مثل ادا کرنا ہوگا۔ یعنی اتنا مہر جو اس عورت کے قبیلہ میں عام رواج ہے۔ اور بیوہ کے لیے بھی یہی چاروں صورتیں ممکن ہیں مگر اس کے احکام میں اختلاف ہے، جو یہ ہے کہ مہر مقرر ہوا ہو یا نہ ہوا ہو اور مرنے والے خاوند نے صحبت کی ہو یا نہ کی ہو، عورت کو بہرحال پورا مہر ملے گا۔ اگر مہر مقرر تھا تو اتنا ملے گا اور اگر مقرر نہیں ہوا تھا تو مہر مثل ملے گا، اور اس کی دلیل درج ذیل حدیث ہے۔ حضرت علقمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ایسے شخص کے متعلق سوال کیا گیا۔ جس نے کسی عورت سے نکاح کیا نہ حق مہر مقرر ہوا اور نہ ہی صحبت کرسکا کہ اس کی وفات ہوگئی۔ ابن مسعود نے اسے جواب دیا کہ اسے اس کے خاندان کی عورتوں کے مثل مہر دیا جائے، نہ کم نہ زیادہ، اور اس پر عدت بھی ہے اور میراث سے اسے حصہ بھی ملے گا۔ (یہ سن کر) معقل بن سنان اشجعی نے کہا کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی ہمارے خاندان کی ایک عورت بروع بنت واشق کے بارے میں ایسا ہی فیصلہ کیا تھا‘‘ یہ سن کر ابن مسعود رضی اللہ عنہ خوش ہوگئے۔ (ترمذی، ابو اب النکاح باب فی الرجل یتزوج المرأۃ فیموت عنھا قبلأن یفرض لھا) نیز ابو داؤد، کتاب النکاح، باب فیمن تزوج ولم یسم صداقا حتی مات)