سورة طه - آیت 44
فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَىٰ
ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد
پس اس سے بات کرو، نرم بات، اس امید پر کہ وہ نصیحت حاصل کرلے، یا ڈر جائے۔
تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی
[٢٩] دعوت کے لئے قوم کا لہجہ ضروری ہے :۔ کسی کے راہ راست پر آنے اور اسے قبول کرنے کی دو ہی صورتیں ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ وہ دعوت کو پوری سمجھ کر حق بات قبول کرلے اور دوسری یہ کہ اپنے برے انجام سے ڈر کر سیدھا ہوجائے۔ یہ دونوں باتیں بتلا دیں اور انھیں تاکید کردی کہ فرعون سے جو بات کہیں نرمی کے لہجہ میں کہیں۔ کیونکہ سختی سے بات کرنے سے بسا اوقات الٹا اثر ہوتا ہے۔ مخاطب اصل بات سمجھنے کی بجائے طرز تخاطب اور لہجہ کی بنا پر ضد اور مخالفت پر اتر آتا ہے۔ گویا تبلیغ اور دعوت دین کا کام کرنے والوں کے لئے یہ ایک نہایت اہم سبق ہے۔