سورة طه - آیت 15

إِنَّ السَّاعَةَ آتِيَةٌ أَكَادُ أُخْفِيهَا لِتُجْزَىٰ كُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعَىٰ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

یقیناً قیامت آنے والی ہے، میں قریب ہوں کہ اسے چھپا کر رکھوں، تاکہ ہر شخص کو اس کا بدلہ دیا جائے جو وہ کوشش کرتا ہے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١١] خفی لا لغوی مفہوم :۔ اخفہا۔ خفی کا معروف معنی چھپنا اور پوشیدہ ہونا ہے اور اخفی کا معنی چھپانا۔ اس لحاظ سے اس کا معنی یہ ہوگا۔ ’’میں اسے چھپائے ہوئے ہوں‘‘ پھر یہ لفظ لغت ذوی الاضداد سے بھی ہے۔ جس کا معنی ہے ظاہر کردینا، کہتے ہیں خفی المظر القارۃ، یعنی بارش نے چوہے کو بل سے نکال کر ظاہر کردیا یا بے نقاب گویا ہم نے دوسرے معنی کو اس لئے ترجیح دی ہے کہ اس سے مطلب زیادہ واضح ہوتا ہے۔ گویا جو آواز اس میدان میں آرہی تھی وہ اللہ کی طرف سے وحی ہو رہی تھی اور قرآن کی صراحت کے مطابق اللہ کا بندے سے ہم کلام ہونا بھی وحی ہی کی تین قسموں میں سے ایک قسم ہے۔ آپ گئے تو تھے آگ لینے کو اور اللہ کی مہربانی یہ ہوئی کہ آپ کو پیغمبری عطا ہوگئی اور کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہوئی۔ حتیٰ کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو خود بھی پہلے علم نہ تھا کہ آپ کو نبوت عطا ہونے والی ہے اور اس وحی میں آپ کو سب سے پہلے دین کی نہایت اہم اور بنیادی باتیں بتلائی گئیں۔ اسلام کی بنیادی تعلیمات :۔ پہلی یہ کہ اللہ ہی اس کائنات کا خالق و مالک ہے۔ یہ کائنات از خود ہی وجود میں نہیں آگئی۔ دوسری یہ کہ اس کائنات کی تخلیق و تملیک میں کوئی دوسرا اس کا شریک نہیں۔ تیسری یہ کہ اس باتوں کے نتیجہ میں عبادت کا وہ اکیلا ہی مستحق ہے اور نماز اللہ سے تعلق قائم رکھنے کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔ لہٰذا اللہ کو یاد رکھنے کے لئے نماز قائم کرنا ضروری ہے۔ اس سے کبھی غفلت نہ کرنا چاہئے اور اگر بھول جائے تو جب یاد آئے نماز ادا کرنا ضروری ہے اور چوتھی یہ ہے کہ قیامت یقیناً آنے والی ہے اور جلد ہی آنے والی ہے۔ تاہم اس کا معین وقت بتلانا خلاف مصلحت ہے اور قیامت قائم کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہر انسان کو اس کے اچھے یا برے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے۔ یہ وہ اصول دین ہیں جو سیدنا آدم علیہ السلام سے لے کر نبی آخر الزمان تک تمام انبیاء و رسل کو وحی کئے جاتے رہے اور ان میں کبھی تغیر و تبدل واقع نہیں ہوا۔