وَكَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُم مِّن قَرْنٍ هُمْ أَحْسَنُ أَثَاثًا وَرِئْيًا
اور ہم نے ان سے پہلے کتنے زمانوں کے لوگ ہلاک کردیے جو سازوسامان میں اور دیکھنے میں کہیں اچھے تھے۔
[٦٦] مال ودولت کے پیمانوں سے دوسروں کی قدرو قیمت متعین کرنا۔ مال ودولت کی فراوانی اللہ کی رضا کی دلیل نہیں :۔ یوم آخرت کا انکار کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے کسی مقام پر تو کافر قرار دیا ہے اور کسی پر مشرک، مشرکین مکہ بھی آخرت کے منکر تھے۔ اس قسم کے منکروں اور دنیا دار لوگوں کا عمومی نظریہ یہی رہا ہے کہ اس دنیا میں مال و دولت کا مہیا ہونا اللہ تعالیٰ کی مہربانی کی دلیل ہے اور اسی مال و دولت اور جاہ کے پیمانوں سے لوگوں کی قیمت کا اندازہ لگاتے ہیں۔ اپنا بھی اور دوسروں کا بھی۔ مشرکین مکہ کا بھی یہی انداز فکر تھا۔ انھیں جب ان کے انجام سے مطلع کیا جاتا تو ان کا یہ جواب ہوتا تھا کہ ہمارے مکانات، فرنیچر، طرز بودو باش اور ہماری مجالس تم لوگوں سے بہتر نہیں؟ اور اگر ہم باطل پر ہوتے جیسا کہ تم ہمیں کہتے ہو تو ہم تم سے ہر لحاظ سے بہتر کیسے ہوسکتے تھے؟ ان لوگوں کے اس نظریہ کو رد کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ معیار ہی غلط ہے۔ اس لئے کہ جو قومیں تم سے پہلے ہم نے تباہ کی ہیں وہ تم سے شان و شوکت اور سازوسامان غرض ہر لحاظ سے بہتر تھیں اور ان پر عذاب الٰہی کا نزول ہی اس بات کی دلیل ہے کہ سازو سامان کی بہتری کے باوجود اللہ تعالیٰ ان سے ناراض تھے۔