وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلَّا بِأَمْرِ رَبِّكَ ۖ لَهُ مَا بَيْنَ أَيْدِينَا وَمَا خَلْفَنَا وَمَا بَيْنَ ذَٰلِكَ ۚ وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيًّا
اور ہم نہیں اترتے مگر تیرے رب کے حکم کے ساتھ۔ اسی کا ہے جو ہمارے آگے ہے اور جو ہمارے پیچھے ہے اور جو اس کے درمیان ہے اور تیرا رب کبھی بھولنے والا نہیں۔
[٦٠] فرشتوں کا نزول اللہ کے حکم کے تحت :۔ اس آیت کے شان نزول اور تفسیر کے لئے درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمایئے : (١) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل ؑسے پوچھا : ’’تم ہمارے پاس جیسے آیا کرتے ہو اس سے زیادہ دفعہ کیوں نہیں آتے؟‘‘ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ ﴿وَمَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمْرِ رَبِّکَ ﴾ (بخاری، کتاب التفسیر، ترمذی، ابو اب التفسیر) (٢) اللہ سے کوئی بات بھولی ہوئی نہیں :۔ سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو چیز اللہ نے اپنی کتاب میں حلال کردی وہ حلال ہے اور جو حرام کی وہ حرام ہے اور جس سے سکوت اختیار کیا وہ معاف ہے۔ لہٰذا تم اللہ کی دی ہوئی معافی قبول کرو۔ کیونکہ اللہ بھولنے والا نہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی : ﴿وَمَا کَانَ رَبُّکَ نَسِـیًّا ﴾المستدرک للحاکم، سندہ صحیح ج ٢ ص ٣٧٥) (٣) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”بے شک اللہ نے کچھ فرائض مقرر کئے ہیں انھیں ضائع نہ کرو اور کچھ چیزوں سے روکا ہے، ان کی اہانت نہ کرو اور کچھ چیزوں سے تم سے درگزر کیا ہے، بھول کی بنا پر نہیں لہٰذا تم ان میں چھان پھٹک نہ کرو۔‘‘ (دارقطنی، بحوالہ الموافقات للشاطبی مترجم ج ١ ص ٢١٩) ہوا یہ تھا کہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کو اللہ کی طرف سے حالات کے مطابق احکام و ہدایت کی شدید ضرورت تھی۔ پھر جب کافی دیر بعد جبریل علیہ السلام متعلقہ ہدایات و احکام لے کر آئے تو بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام سے ضمناً یہ بات بھی کہہ دی۔ جس کے جواب میں جبریل علیہ السلام نے یہ وضاحت فرما دی کہ ہم کوئی بااختیار شخصیت نہیں ہیں بلکہ اللہ کے حکم کے بندے ہیں جب ہمیں حکم ملے تب ہی آسکتے ہیں اور آپ کا پروردگار سب کچھ دیکھ رہا ہے وہ بھولنے والا نہیں، بلکہ اس دیر میں بھی اس کی مصلحتیں مضمر ہوتی ہیں۔