أُولَٰئِكَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ مِن ذُرِّيَّةِ آدَمَ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ وَمِن ذُرِّيَّةِ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْرَائِيلَ وَمِمَّنْ هَدَيْنَا وَاجْتَبَيْنَا ۚ إِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُ الرَّحْمَٰنِ خَرُّوا سُجَّدًا وَبُكِيًّا ۩
یہی لوگ ہیں جن پر اللہ نے انعام کیا نبیوں میں سے، آدم کی اولاد سے اور ان لوگوں میں سے جنھیں ہم نے نوح کے ساتھ سوار کیا اور ابراہیم اور اسرائیل کی اولاد سے اور ان لوگوں سے جنھیں ہم نے ہدایت دی اور ہم نے چن لیا۔ جب ان پر رحمان کی آیات پڑھی جاتی تھیں وہ سجدہ کرتے اور روتے ہوئے گر جاتے تھے۔
[٥٤] سلسلہ نبوت کا اختصاص :۔ مذکورہ بالا انبیاء میں سے صرف سیدنا ادریس ہیں جو نوح علیہ السلام سے پہلے مبعوث ہوئے لہٰذا آپ صرف اولاد آدم سے ہوئے، باقی سب انبیاء یا تو نوح علیہ السلام کی اولاد سے تھے یا ان لوگوں کی اولاد سے جو نوح علیہ السلام کے ہمراہ کشتی میں سوار ہوئے تھے اور سلسلہ نبوت یوں چلتا ہے کہ آدم علیہ السلام کی پیدائش سے پیشتر یہ سلسلہ نبوت جنوں میں تھا پھر چونکہ آدم علیہ السلام اشرف المخلوقات تھے تو سلسلہ نبوت سیدنا آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد کی طرف منتقل ہوگیا۔ پھر یہ سلسلہ نوح اور اولاد نوح سے مختص ہوا پھر سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور ان کی اولاد سے، پھر اس کے بعد یہ سلسلہ اسرائیل (یعقوب) کی اولاد سے مختص ہوا۔ صرف نبی آخر الزمان سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے تھے اور ان انبیاء پر یہ انعام اس لئے ہوا کہ یہی لوگ اپنے اپنے دور کی بہترین شخصیات تھے اور ان لوگوں کا یہ حال تھا کہ جب انھیں اللہ کی آیات سنائی جاتیں تو ان کے دلوں پر رقت طاری ہوجاتی، اللہ کے انعامات کو یاد کر کر کے ان کے سر جھکے جاتے تھے۔ پھر وہ اللہ سے ہر وقت ڈرتے بھی رہتے تھے اور اللہ کی آیات سنتے تو ان کے ڈر میں مزید اضافہ ہوجاتا اور وہ روتے ہوئے اللہ کے سامنے سربسجود ہوجاتے تھے۔ علماء کا اجماع ہے کہ اس آیت پر سجدہ کرنا چاہئے تاکہ ان مقربین کے طرز عمل کو یاد کرکے ان سے ایک طرح کی مشابہت حاصل ہوجائے اور حدیث میں ہے کہ قرآن کی تلاوت کرو تو رؤو اور اگر رونا نہ آئے تو (کم ازکم) رونے کی صورت بنا لو، (شرح السنۃ بحوالہ مشکوٰۃ، کتاب الفتن، باب صفۃ النار و اھلہا۔ الفصل الثانی)