نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّىٰ شِئْتُمْ ۖ وَقَدِّمُوا لِأَنفُسِكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُم مُّلَاقُوهُ ۗ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ
تمھاری عورتیں تمھارے لیے کھیتی ہیں، سو اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو آؤ اور اپنے لیے آگے (سامان) بھیجو اور اللہ سے ڈرو اور جان لو کہ یقیناً تم اس سے ملنے والے ہو اور ایمان والوں کو خوشخبری دے دے۔
[٢٩٨] اس آیت کے شان نزول میں دو طرح کی احادیث آئی ہیں۔ ایک یہ کہ یہودی کہا کرتے تھے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس اس کے پیچھے سے آئے تو بچہ بھینگا ہوتا ہے (ان کے اس خیال کی تردید میں) یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری، کتاب التفسیر زیر آیت مذکورہ- مسلم، کتاب النکاح، باب جواز جماعہ امراتہ فی قبلھا من قدامھا و من ورائھا من غیر تعرض للدبر) دوسری یہ کہ عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آ کر کہنے لگے کہ : ’’میں ہلاک ہو گیا‘‘ آپ نے پوچھا : ’’تجھے کس چیز نے ہلاک کیا ؟‘‘ کہنے لگے: میں نے آج اپنی سواری پھیر لی۔ آپ نے کچھ جواب نہ دیا تاآنکہ آپ پر یہ آیت نازل ہوئی (پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا) ’’ آگے سے صحبت کرو یا پیچھے سے مگر دبر میں یا حیض کی حالت میں مجامعت نہ کرو۔‘‘ (ترمذی، ابو اب التفسیر، زیر آیت مذکورہ) گویا اس آیت میں بیوی کو کھیتی سے تشبیہ دے کر یہ واضح کردیا کہ نطفہ جو بیج کی طرح ہے صرف سامنے (فرج) ہی میں ڈالا جائے۔ خواہ کسی بھی صورت میں ڈالا جائے، لیٹ کر، بیٹھ کر، پیچھے سے بہرحال فرج ہی میں ڈالا جائے اور پیداوار یعنی اولاد حاصل کرنے کی غرض سے ڈالا جائے۔ [٢٩٩]مجامعت کامقصد:۔ یعنی اولاد کی خاطر اور اپنی نسل برقرار رکھنے کے لیے یہ کام کرو۔ تاکہ تمہارے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد تمہاری جگہ پر دین کا کام کرنے والے موجود ہوں اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اپنی اولاد کی صحیح طور پر تربیت کرو انہیں علم سکھلاؤ اور دیندار بناؤ ان کے اخلاق سنوارو اور اس کے عوض آخرت میں اللہ تعالیٰ سے اجر و ثواب کی امید رکھو۔