سورة مريم - آیت 33

وَالسَّلَامُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدتُّ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيًّا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور خاص سلامتی ہے مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن فوت ہوں گا اور جس دن زندہ ہو کر اٹھایا جاؤں گا۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٣٠] سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے اس وقت کے کلام کے باقی نکات یہ تھے کہ میں جہاں کہیں بھی رہوں گا اللہ کی مہربانی سے اس کی برکات میرے شامل حال رہیں گی اور مجھے یہ بھی تاکیدی حکم دیا گیا ہے کہ جب تک زندہ رہوں باقاعدگی کے ساتھ نمازیں اور زکوٰۃ ادا کرتا رہوں۔ اور اپنی والدہ سے بہتر سلوک کرتا رہوں (صرف والدہ کا ذکر اس لئے کیا کہ آپ کا والد تھا ہی نہیں ورنہ اس کا بھی ضرور ذکر کرتے) اللہ نے میری سرشت میں نہ سرکشی رکھی ہے اور نہ بدبختی۔ جب میں پیدا ہوا تھا تو اس دن بھی اللہ نے مجھ پر سلامتی نازل فرمائی تھی اور مرتے وقت حتیٰ کہ مرنے کے بعد اٹھتے وقت یعنی اس دنیا میں بھی اور اگلے جہان میں بھی بہرحال اللہ مجھ پر سلامتی نازل فرمائے گا۔ یہ تھا وہ پورا کلام جو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے اس وقت کیا تھا جبکہ آپ کی والدہ پر الزام تراشیاں کی جارہی تھیں۔ گود میں کلام کرنے والے تین بچے :۔ واضح رہے کہ بخاری و مسلم دونوں میں ایک طویل حدیث موجود ہے جس میں یہ مذکور ہے کہ بنی اسرائیل کے تین بچوں نے مہد میں کلام کیا تھا۔ ان میں سے ایک تو یہی سیدنا عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔ ان کے مخاطب یہود تھے اور آپ کے اس کلام کا مقصود پہلے بیان ہوچکا ہے۔ دوسرا ابن جریج راہب کا قصہ ہے جسے بالخصوص مسلم نے بڑی تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ ابن جریج راہب پر زنا کی تہمت لگائی گئی تو انہوں نے اللہ سے بریت کی دعا کی پھر حرامی نومولود بچہ کو کچوکا لگا کر پوچھا کہ بتاؤ کہ تمہارا باپ کون ہے؟ تو بچہ بول اٹھا کہ فلاں چرواہا ہے۔ اس طرح اللہ نے ابن جریج راہب کو زنا کی تہمت سے بری فرما دیا۔ اور تیسرے بچہ کی مخاطب اس کی ماں تھی جو سامان دنیا پر ریجھی ہوئی تھی تو بچہ نے بول کر اپنی ماں کی گمراہ کن غلط فہمی کو دور کردیا۔ اور مہد میں کلام کرنے کا مطلب یہ ہے کہ بچہ شیرخوارگی کے عالم میں کلام کرے جب کہ ابھی اس نے کلام کرنا نہ سیکھا ہو۔ اور یہ مہد کا کلام تینوں واقعات میں صرف ایک ہی بار وقوع پذیر ہوا۔ یہ نہیں کہ ان بچوں نے اس عالم میں متعدد بار کلام کیا ہو۔