وَلَا تَنكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتَّىٰ يُؤْمِنَّ ۚ وَلَأَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكَةٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْكُمْ ۗ وَلَا تُنكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّىٰ يُؤْمِنُوا ۚ وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكٍ وَلَوْ أَعْجَبَكُمْ ۗ أُولَٰئِكَ يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ ۖ وَاللَّهُ يَدْعُو إِلَى الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِإِذْنِهِ ۖ وَيُبَيِّنُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ
اور مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو، یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں اور یقیناً ایک مومن لونڈی کسی بھی مشرک عورت سے بہتر ہے، خواہ وہ تمھیں اچھی لگے اور نہ (اپنی عورتیں) مشرک مردوں کے نکاح میں دو، یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں اور یقیناً ایک مومن غلام کسی بھی مشرک مرد سے بہتر ہے، خواہ وہ تمھیں اچھا معلوم ہو۔ یہ لوگ آگ کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ اپنے حکم سے جنت اور بخشش کی طرف بلاتا ہے اور لوگوں کے لیے اپنی آیات کھول کر بیان کرتا ہے، تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔
[٢٩٤] مشرکہ سےنکاح کیوں ممنوع ہے؟کیونکہ مرد اور عورت کے درمیان نکاح کا تعلق محض شہوانی تعلق ہی نہیں جیسا کہ بادی النظر میں معلوم ہوتا ہے بلکہ اس تعلق کے اثرات بڑے دور رس ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کے دماغ اخلاق اور تمدن پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ مثلاً ایک مومن ایک مشرکہ سے نکاح کرتا ہے تو اگر وہ مومن اپنے ایمان میں پختہ، علم میں بیوی سے فائق تر اور عزم کا پکا ہوگا تو اس صورت میں وہ اپنی بیوی کی اور کسی حد تک اپنے سسرال والوں کی اصلاح کرسکتا ہے۔ ورنہ عموماً یوں ہوتا ہے کہ مرد مغلوب اور عورت اس کے افکار پر غالب آ جاتی ہے اور اگر دونوں اپنی اپنی جگہ پکے ہوں تو ان میں ہر وقت معرکہ آرائی ہوتی رہے گی اور اگر دونوں ڈھیلے ہوں تو وہ دونوں شرک اور توحید کے درمیان سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہوں گے اور یہ صورت اسلامی نقطہ نظر سے قطعاً گوارا نہیں اور ایسی صورت کو بھی شرک ہی قرار دیا گیا ہے اور اگر مرد مشرک اور بیوی موحد ہو تو شرک کے خطرات مزید بڑھ سکتے ہیں۔ لہذا نقصان کے احتمالات زیادہ ہونے کی بنا پر ایسے نکاح کو ناجائز قرار دیا گیا اور فرمایا کہ ظاہری کمال و محاسن دیکھنے کی بجائے صرف ایمان ہی کو شرط نکاح قرار دیا جائے ضمناً اس سے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ نکاح کے بعد کوئی ایک فریق مشرک ہوجائے تو سابقہ نکاح از خود ٹوٹ جائے گا۔