أُولَٰئِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ وَلِقَائِهِ فَحَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَزْنًا
یہی لوگ ہیں جنھوں نے اپنے رب کی آیات اور اس کی ملاقات کا انکار کیا، تو ان کے اعمال ضائع ہوگئے، سو ہم قیامت کے دن ان کے لیے کوئی وزن قائم نہیں کریں گے۔
[٨٥] کافروں کے نیک اعمال کے لئے ترازو کیوں نہ رکھا جائے گا ؟ یعنی دنیا کے حصول میں ایسے منہمک رہے کہ اللہ کبھی بھولے سے بھی یاد نہ آیا اور نہ ہی آخرت کے لیے کوئی نیکی کا کام کیا ایسے لوگ جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے انہوں نے دنیا میں اگر کچھ نیک کام کیے بھی ہوں گے تو انھیں اس کا کچھ بدلہ نہیں ملے گا اس لیے کہ انہوں نے یہ نیک کام آخرت کے لیے نہیں کیے تھے بلکہ دنیا کے لیے کیے تھے تو دنیا میں انھیں ان کا بدلہ مل گیا۔ مثلاً کسی نے کوئی تعلیمی درس گاہ یا ہسپتال کھولا تو اس سے اس کا مفاد یا تو قومی مفاد تھا یا اپنی شہرت وغیرہ۔ تو یہ مفاد انھیں دنیا میں ہی مل گئے۔ ایسی عمارتوں پر ان کا نام کندہ ہوگیا مرنے کے بعد بھی ان کا نام زندہ رہا۔ لوگوں میں ان کی نیک نامی کی شہرت ہوچکی لہٰذا آخرت میں انھیں کچھ اجر نہیں ملے گا۔ رہ گیا ان کا کفر اور ان کے برے اعمال تو صرف ان کو تولنے کا کچھ فائدہ ہی نہیں، فائدہ تو تب ہوسکتا ہے جب دوسرے پلڑے میں بھی کچھ وزن ہو اگر ایک پلڑا یکسر خالی ہو تو تولا کیا جائے؟ پھر ان کے کفر اور برے اعمال کی وجہ سے انھیں جہنم رسید کیا جائے گا اور وہ سب سے زیادہ گھاٹے والے اس لحاظ سے رہے کہ دنیا میں وہ نیک اعمال بھی کرتے رہے اور سمجھتے رہے کہ ہم بہت اچھے کام کر رہے ہیں مگر آخرت پر ایمان نہ رکھنے کی بنا پر وہ انھیں لوگوں میں شامل ہوجائیں گے جنہوں نے اپنی ساری عمر بدکرداریوں میں گزاری تھی اور نیکی کے کام کیے ہی نہ تھے۔