قَالَ أَمَّا مَن ظَلَمَ فَسَوْفَ نُعَذِّبُهُ ثُمَّ يُرَدُّ إِلَىٰ رَبِّهِ فَيُعَذِّبُهُ عَذَابًا نُّكْرًا
اس نے کہا جو شخص تو ظلم کرے گا سو ہم اسے جلدی سزا دیں گے، پھر وہ اپنے رب کی طرف لوٹایا جائے گا تو وہ اسے عذاب دے گا، بہت برا عذاب۔
[٧٣] ذوالقرنین کا مغربی قوم سے سلوک :۔ چنانچہ ذوالقرنین نے دوسری راہ اختیار کی کہ اس قوم کو پوری طرح سمجھایا جائے اور انھیں اسلام کی دعوت دی جائے اور یہ فیصلہ کیا کہ اس کے نتیجہ میں جو لوگ اکڑ جائیں گے اور ظالموں کی روش اختیار کریں گے ہم صرف انھیں ہی سزا دیں گے اور انھیں سے سختی کا برتاؤ کریں گے پھر موت کے بعد جب ایسا آدمی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش ہوگا تو وہ اسے سخت عذاب بھی دے گا لیکن جو لوگ اس دعوت کو قبول کرلیں گے اور اپنا طرززندگی بدل کر نیک کام کرنے لگیں گے ان کو اللہ کے ہاں اچھا اجر ملے گا اور ہم بھی ان سے نرمی کا برتاؤ کریں گے جیسا کہ ہر عادل بادشاہ کی یہ صفت ہوتی ہے کہ وہ غلبہ پانے کے بعد بدکردار لوگوں سے سختی سے پیش آتے ہیں اور بھلے لوگوں سے مہربانی کرتے اور ان سے مہربانی سے پیش آتے ہیں۔