سورة الكهف - آیت 82

وَأَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلَامَيْنِ يَتِيمَيْنِ فِي الْمَدِينَةِ وَكَانَ تَحْتَهُ كَنزٌ لَّهُمَا وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحًا فَأَرَادَ رَبُّكَ أَن يَبْلُغَا أَشُدَّهُمَا وَيَسْتَخْرِجَا كَنزَهُمَا رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ ۚ وَمَا فَعَلْتُهُ عَنْ أَمْرِي ۚ ذَٰلِكَ تَأْوِيلُ مَا لَمْ تَسْطِع عَّلَيْهِ صَبْرًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور رہ گئی دیوار تو وہ شہر میں دو یتیم لڑکوں کی تھی اور اس کے نیچے ان دونوں کے لیے ایک خزانہ تھا اور ان کا باپ نیک تھا تو تیرے رب نے چاہا کہ وہ دونوں اپنی جوانی کو پہنچ جائیں اور اپنا خزانہ نکال لیں، تیرے رب کی طرف سے رحمت کے لیے اور میں نے یہ اپنی مرضی سے نہیں کیا۔ یہ ہے اصل حقیقت ان باتوں کی جن پر تو صبر نہیں کرسکا۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٧٠] یعنی اگر دیوار کسی وقت گر پڑتی تو خزانہ ظاہر ہوجاتا بدنیت لوگ اس پر قبضہ کرلیتے یا اٹھا لے جاتے اور ان یتیموں کے ہاتھ کچھ بھی نہ لگتا۔ اب یہ بڑے ہو کر خود اپنے باپ کی دفن شدہ دولت نکال کر اپنے استعمال میں لاسکیں گے۔ اللہ تعالیٰ کی مصلحتیں اللہ ہی جانتا ہے :۔ مندرجہ بالا تینوں واقعات سے دراصل مشیئت الٰہی کے کاموں میں پوشیدہ حکمتوں پر روشنی پڑتی ہے پہلا کام یہ تھا کہ کشتی والوں نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام و سیدنا خضر دونوں کو پردیسی سمجھ کر ان سے کرایہ نہیں لیا اور کشتی میں سوار کرلیا۔ جس کے صلہ میں سیدنا خضر نے ایسا کام کیا جو بظاہر غلط معلوم ہوتا تھا لیکن حقیقت میں سیدنا خضر نے ان سے بہت بڑی خیر خواہی کی اور ان کے احسان کا اس طرح بدلہ چکایا کہ انھیں بہت بڑے نقصان سے بچا لیا اس سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ کسی نقصان پر بے صبر نہ ہونا چاہیے اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس نقصان میں بھی اللہ نے اس کے لیے کون سے اور کتنے بڑے فائدے کو پوشیدہ رکھا ہوا ہے۔ دوسرا واقعہ صدمہ کے لحاظ سے پہلے واقعہ سے شدید تر ہے لیکن اس میں جو اللہ کی مصلحت پوشیدہ تھی وہ بھی منفعت کے لحاظ سے پہلے واقعہ کی نسبت بہت زیادہ تھی اور دونوں واقعات سے یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ مصائب پر ایک مسلمان کو صبر کرنا چاہیے اور اللہ کی مشیئت پر راضی رہنا چاہیے اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ جتنی مصیبت پر صبر کیا تھا اسی کے مطابق اللہ اس کا اجر اور نعم البدل عطا فرماتا ہے۔ تیسرے واقعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی نیک آدمی کی رفاقت کے بعد بھی اللہ تعالیٰ اس کا اچھا بدلہ اس کی اولاد کو دیا کرتا ہے۔ مرنے والا چونکہ نیک انسان تھا لہٰذا اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہوا کہ اس کا مدفون خزانہ یا ورثہ دوسرے لوگ نہ اڑا لے جائیں، بلکہ اس کی اولاد کے ہی حصہ میں آئے۔ [٧١] خضر کون تھے؟ یہ سوال مختلف فیہ رہا ہے کہ سیدنا خضر کون اور کیا تھے؟ بعض علماء انھیں نبی تسلیم کرتے ہیں بعض ولی اور بعض ولی بھی نہیں سمجھتے بلکہ ایک فرشتہ سمجھتے ہیں جن کا شمار مدبرات امر میں ہوتا ہے اب ہمیں یہ جائزہ لینا ہے کہ ان میں کون سی بات درست ہوسکتی ہے۔ ہمارے خیال میں سیدنا خضر نبی نہیں تھے اور اس کی دو وجہیں ہیں۔ ایک یہ کہ بخاری کی طویل روایت کے مطابق سیدنا خضر، سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے خود فرما رہے ہیں کہ ’’موسیٰ! دیکھو! اللہ تعالیٰ نے اپنے علوم میں سے ایک علم مجھے سکھایا ہے جسے آپ نہیں جانتے اور ایک علم آپ کو سکھایا ہے جسے میں نہیں جانتا لہٰذا تم میرے ساتھ صبر نہ کرسکو گے اور یہ تو ظاہر ہے کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو نبوت اور شریعت کا علم سکھایا گیا تھا جسے سیدنا خضر نہیں جانتے تھے لہٰذا وہ نبی نہ ہوئے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ قرآنی آیات کی رو سے یہ ثابت شدہ امرہے کہ انبیاء کا علم ابتدا سے ایک ہی رہا ہے اور چونکہ سیدنا خضر کا علم اس علم سے متصادم تھا لہٰذا وہ نبی نہیں تھے۔ اب اگر انھیں ولی تسلیم کرلیا جائے تو یہ باور کیا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں (بقول صوفیاء ) کشف والہام سے غیب کے حالات سے مطلع کردیا ہو لیکن ولی کو یہ کب اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے علم غیب سے اطلاع کی بنا پر کسی دوسرے کی مملوکہ چیز کو تباہ کر دے یا کسی انسان کو قتل بھی کر ڈالے۔ ولی بھی آخر انسان ہے جو احکام شریعت کا مکلف ہے اور اصول شریعت میں یہ گنجائش کہیں نہیں پائی جاتی کہ کسی انسان کے لیے محض اس بنا پر احکام شرعیہ میں سے کسی حکم کی خلاف ورزی جائز ہو کہ اسے بذریعہ الہام اس کی خلاف ورزی کا حکم ملا ہے یا بذریعہ علم غیب اس خلاف ورزی کی مصلحت بتائی گئی ہے۔ صوفیاء کے نزدیک بھی کسی ایسے الہام پر عمل کرنا خود صاحب الہام تک کے لیے بھی جائز نہیں ہے جو نص شرعی کے خلاف ہو۔ لہٰذا سیدنا خضر نہ نبی تھے نہ ولی بلکہ وہ انسان کی جنس سے بھی نہ تھے ایک ظالم اور فاسق انسان ہی ایسے کام کرسکتا ہے مگر وہ تو اللہ کی ایک برگزیدہ شخصیت تھے۔ اب لامحالہ ایک ہی صورت باقی رہ جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ ان فرشتوں میں سے تھے جو تدبیر امور کائنات پر مامور ہیں اور اس پر کئی دلائل ہیں پہلی دلیل تو ان کا اپنا یہ قول کہ ( مافعلتہ عن امری) کہ یہ کام میں نے اپنی مرضی یا اختیار سے نہیں کیے بلکہ اللہ کے حکم سے کیے ہیں۔ گویا وہ خود اعتراف کررہے ہیں کہ وہ خود مختار نہیں اور یہ وہی بات ہے جسے اللہ نے فرشتوں کی صفات کے سلسلہ میں فرمایا کہ’’وہ اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ وہ کچھ کرتے ہیں جو انھیں حکم دیا جاتا ہے‘‘ (٦٦: ٦) اور وہ نافرمانی کر بھی نہیں سکتے۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ ایسے فرشتے جب انسانی شکل میں آکر انسانوں سے ہمکلام ہوتے ہیں تو بعض دفعہ اللہ تعالیٰ کی مخصوص صفات کو اپنی طرف منسوب کرتے ہیں۔ سیدنا جبرئیل انسانی شکل میں سیدہ مریم کے سامنے آئے تو کہا﴿لاِھَبِ لَکِ غُلاَمًا زِکِیًّا﴾(٩: ١٩) (تاکہ میں تجھے ایک پاکیزہ سیرت لڑکا عطا کروں) اور یہ تو ظاہر ہے کہ لڑکا عطا کرنا تو صرف اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ اللہ تعالیٰ کی کسی مخلوق کا کام نہیں اور فرشتے اللہ کی مخلوق ہیں اور یہ جملہ جو سیدنا جبرئیل نے کہا اسی لحاظ سے کہا کہ آپ اللہ کی طرف سے تدبیر امور کائنات میں سے ایک امر پر مامور تھے۔ بالکل اسی طرح سیدنا خضر بھی جب ان واقعات کی تاویل بتاتے ہیں تو کبھی کسی کام کو براہ راست اپنی طرف منسوب کرتے ہیں کسی کو اللہ کی طرف اور کسی کو دونوں کی طرف۔ پہلے واقعہ کے متعلق فرمایا :﴿فَاَرْدَتُّ اَنْ اَعِیْبَھَا﴾ یعنی میں نے ارادہ کیا کہ اس کشتی کو عیب دار بنادوں حالانکہ آخر میں کہا کہ میں نے اپنے ارادہ و اختیار اور مرضی سے کچھ نہیں کیا اور دوسرے واقعہ کے متعلق فرمایا : ﴿ فَاَرْدْنَا اَنْ یُبْدِلَھُمَا رَبُّھُمَا﴾ یعنی ہم نے ارادہ کیا کہ ان والدین کا پروردگار انھیں اس لڑکے کا نعم البدل عطا فرمائے۔ یہاں ارادہ کی نسبت میں سیدنا خضر اور اللہ تعالیٰ دونوں مشترک ہیں اور تیسرے واقعہ کی نسبت صرف اللہ تعالیٰ کی طرف کرتے ہوئے فرمایا کہ :﴿ فَاَرَادَ رَبُّکَ﴾ یعنی آپ کے پروردگار نے چاہا۔ یہ بحث الگ ہے کہ پہلے واقعہ کی نسبت سیدنا خضر نے صرف اپنی طرف، دوسرے میں دونوں کی طرف اور تیسرے میں صرف اللہ کی طرف کیوں کی؟ یہاں صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ خدائی صفات کو اپنی طرف منسوب کرنا صرف ان فرشتوں کا کام ہوسکتا ہے جو تدابیر امور کائنات پر مامور ہیں کسی نبی یا ولی کے لیے ایسی نسبت کرنا قطعاً جائز نہیں ہے۔ مندرجہ بالا توجیہ میں چند اشکالات بھی پیش آتے ہیں جن کا ازالہ ضروری ہے مثلاً اللہ تعالیٰ نے سیدنا خضر کے لیے ﴿عَبْدًا مِنْ عِبَادِنَا﴾کے الفاظ استعمال کیے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ عبد کا لفظ فرشتوں کے متعلق بھی ایسے ہی استعمال ہوتا ہے جیسے انسانوں کے متعلق، جیسے فرمایا ﴿وَجَعَلُوا الْمَلٰئِکَۃَ الَّذِیْنَ ھُمْ عِبَاد الرَّحْمٰنِ اِنَاثًا﴾(٤٣ : ١٩) دوسرا اشکال یہ ہے کہ حدیث بالا میں سیدنا خضر کے لیے رجل کا لفظ آیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ فرشتے جب بھی انسانی شکل میں آئے تو ہمیشہ مردوں ہی کی شکل میں آتے ہیں۔ اور تیسرا اشکال یہ ہے کہ کشتی والوں نے سیدنا خضر کو پہچان کر بغیر کرایہ ہی کشتی پر سوار کرلیا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کشتی کے مالکوں نے پہلے سیدنا خضر کو کہیں دیکھا تھا اور وہ ان کی نظروں میں قابل احترام بھی تھے اس بات کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے کہ جس میں مذکور ہے کہ سیدنا خضرکا نام خضر اس لیے پڑگیا تھا کہ وہ جہاں بیٹھتے وہاں سبزہ اگ آتا تھا۔ شاید ان کشتی والوں نے کوئی ایسا منظر دیکھ لیا ہو۔ بہرحال یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ سیدنا خضر اس علاقے کے باشندے نہ تھے ورنہ صرف اس کشتی کے مالک تو درکنار سب لوگ ہی ایسی عجوبہ روزگار شخصیت کو پہچاننے کی بجائے ٹھیک طرح جانتے ہوتے۔ (واللہ اعلم بالصواب) سیدنا خضر اور متصوفین :۔ اس واقعہ سے صدیوں بعد سیدنا خضرکے متعلق عجیب عجیب قسم کے عقائد رائج ہوگئے۔ ہمارے صوفیاء نے ان کو ولی قرار دے کر سیدنا موسیٰ کا استاد اور ان سے افضل ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ کوششیں اس وقت شروع ہوئیں جب ان میں یہ عقیدہ رائج ہوا کہ ’’ولایت نبوت سے افضل ہے‘‘ پھر اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ یہ لوگ سیدنا خضر کو ایک زندہ جاوید ہستی تسلیم کرکے ان سے ہر وقت رہبری کے خواہاں رہتے ہیں جب تک انھیں سیدنا خضر سے ملاقات اور رہبری حاصل نہ ہو ان کی ولایت مکمل ہی نہیں ہوتی پھر سیدنا خضر کی فرضی شخصیت کے متعلق طرح طرح کے افسانے تراشے گئے جو اتنے عام ہوئے کہ ہمارے شعر و ادب میں بھی داخل ہوگئے مثلاً ایک شاعر کہتا ہے۔ تہیدستان قسمت راچہ سود از رہبر کامل۔۔ کہ خضر از آب حیوان تشنہ می آرد سکندر را یہ شعر تو سیدنا خضر کے فیض سے متعلق تھا اب دوسرا شعر ان کی رہبری، رہنمائی اور ہدایت سے متعلق ملاحظہ فرمائیے۔ اقبال کہتا ہے : تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خودکشی۔۔ رستہ بھی ڈھونڈ خضر کا سودا بھی چھوڑ دے سیدناخضر کے متعلق عجیب وغریب عقائد :۔ البتہ علمائے حق نے اس قسم کی اوہام پرستی کے خلاف ہمیشہ آواز بلند کی ہے چنانچہ دائرہ المعارف الاسلامیہ مطبوعہ پنجاب یونیورسٹی لاہور میں زیر عنوان طریقت جلد ١٢ صفحہ ٤٦٠ پر درج ہے۔ کہ ’’راسخ القیدہ فقہا نے اہل تصوف کے استاد الہامی (سیدنا خضر) کے خلاف بھی آواز بلند کی ہے جس کی بنا پر سلسلہ تصوف کو ایک ایسی مقدس ہستی (سیدنا خضر) کے مظاہر سے فیضان حاصل ہوتا ہے جو پراسرار اور غیر فانی ہے یعنی الخضر جن کی ہادی طریقت کی حیثیت سے سب فرقے توقیر و تعظیم کرتے ہیں کیونکہ وہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے رہنما اور صوفی کی روح کو حقیقت علیا سے آشنا کرانے کے اہل ہیں یہ عقیدہ غالباً تصوف کی کسی مستند کتاب میں نہیں پایا جاتا“ پھر اسی دائرۃ المعارف میں خواجہ خضر کے عنوان کے تحت لکھا ہے کہ ’’ہندوستان میں انھیں (سیدنا خضر کو) کنوؤں اور چشموں کی روح کاروپ سمجھا جاتا ہے۔ دریائے سندھ کے آرپار انھیں دریا کا اوتار سمجھا جاتا ہے سیدنا خضر کی خانقاہ سندھ کے ایک جزیرے میں بھکر کے پاس ہے جہاں ہر مذہب کے عقیدت مند زیارت کو جاتے ہیں۔‘‘ (ایضاً جلد ٥ ص ٢٢) اس طرح سیدنا خضر کے نام سے شرک کا ایک دروازہ کھل گیا اور اب تو سیدنا خضر کی نماز بھی پڑھی جانے لگی ہے جس کی برکت سے سیدنا خضر سے ملاقات بھی ہوجاتی ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے تلقین مرشد کامل از صادق فرغانی ص ٢٤٠) اور بعض لوگ خواجہ خضر خواج کی نیاز دریا میں پھینکتے ہیں تاکہ کشتی یا جہاز بخیر و عافیت کنارے پر لگ جائے گویا ایسے مشرکوں کے لیے خواجہ خضر ایک مستقل اوتار یا معبود بن گیا ہے۔