وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِي هَٰذَا الْقُرْآنِ لِلنَّاسِ مِن كُلِّ مَثَلٍ ۚ وَكَانَ الْإِنسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا
اور بلاشبہ یقیناً ہم نے اس قرآن میں لوگوں کے لیے ہر مثال پھیر پھیر کر بیان کی ہے اور انسان ہمیشہ سے سب چیزوں سے زیادہ جھگڑنے والا ہے۔
[٥٢] انسان فطرتا جھگڑالو واقع ہوا ہے۔ مشیئت الٰہی کو بہانہ بنانا :۔ انسان کی ہدایت کے لیے اس کی عقل اور اس کے دل کو اپیل کرنے والی بہت سے دلیلیں مختلف پیرا یوں میں اور دل نشین انداز میں بیان کردی ہیں مگر انسان کچھ اس طرح کا جھگڑالو اور ہٹ دھرم واقع ہوا ہے کہ جس بات کو نہ ماننے کا تہیہ کرلے اس پر کئی طرح کے اعتراض وارد کرسکتا ہے۔ جھوٹے دلائل اور حیلوں بہانوں سے جواب پیش کرسکتا ہے۔ بات کا موضوع ہی بدل کر گندم کا جواب چنے میں دے سکتا ہے مگر حقیقت کو قبول کرلینا گوارا نہیں کرتا اور انسان کی یہ سرشت صرف ضدی، ہٹ دھرم اور مجرم قسم کے لوگوں میں نہیں ہوتی بلکہ بعض دفعہ ایک نیکو کار مومن بھی اپنے آپ کو حق بجانب ثابت کرنے کے لیے کوئی عذر تلاش کرلیتا ہے۔ چنانچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہاں تشریف لائے اور ہم دونوں (میں اور فاطمہ) کو مخاطب کرکے کہا کہ ’’تم لوگ تہجد کی نماز کیوں نہیں پڑھتے‘‘ میں نے جواب دیا ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے نفس اللہ کے ہاتھ میں ہیں وہ چاہے گا کہ ہم اٹھیں تو اٹھ جائیں گے‘‘ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوراً واپس ہوگئے اور اپنی ران پر ہاتھ رکھ کر فرمایا : ﴿ وَکَانَ الْاِنْسَانُ اَکْثَرَ شَیْءٍ جَدَلًا ﴾ (بخاری، کتاب التھجد۔ باب تحریض النبی علی قیام اللیل والنوافل) گویا سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے قصور کا اعتراف کرنے کی بجائے مشیئت الٰہی کا عذر پیش کردیا اور اس اختیار کی طرف توجہ نہ کی جو انھیں اور ہر انسان کو عطا کیا گیا ہے۔