وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِ ۗ أَفَتَتَّخِذُونَهُ وَذُرِّيَّتَهُ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِي وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ ۚ بِئْسَ لِلظَّالِمِينَ بَدَلًا
اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا آدم کو سجدہ کرو تو انھوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس، وہ جنوں میں سے تھا، سو اس نے اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کی، تو کیا تم اسے اور اس کی اولاد کو مجھے چھوڑ کر دوست بناتے ہو، حالانکہ وہ تمھارے دشمن ہیں، وہ (شیطان) ظالموں کے لیے بطور بدل برا ہے۔
[٤٦] اعمال کا بلا کم وکاست اندراج :۔ نہ تو یہ ہوگا کہ ایک کے جرم کی سزا دوسرے کو دے دی جائے نہ یہ کہ کسی کا جرم کم ہو اور اسے سزا دے دی جائے نہ یہ کہ کسی کو بے گناہ ہی دھر لیا جائے یعنی ظلم کی کوئی قسم وہاں روا نہیں رکھی جائے گی اعمال نامہ میں جو کچھ فرشتوں نے درج کیا ہوگا بعینہ اسی کے مطابق اسے بدلہ دیا جائے گا۔ [٤٧] فرشتوں کو سجدہ کا حکم، ابلیس کا انکار حالانکہ وہ فرشتہ نہیں تھا :۔ وہ فرشتوں کی اصل سے نہیں تھا کیونکہ فرشتے فطری طور پر اللہ تعالیٰ کی فرمانبردار مخلوق ہے وہ اللہ کے حکم کی نہ نافرمانی کرتے ہیں نہ کرسکتے ہیں اللہ کی اطاعت کرنے یا نہ کرنے کا اختیار صرف جنوں اور انسانوں کو دیا گیا ہے اس لیے احکام ہدایت جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابوں میں نازل فرمائے ہیں خواہ ان کا تعلق اوامر سے ہو یا نواہی سے صرف جنوں اور انسانوں سے ہی متعلق ہیں۔ ابلیس چونکہ جنوں کی نسل سے تعلق رکھتا تھا اور اللہ کا حکم ماننے یا نہ ماننے کا اختیار رکھتا تھا لہٰذا اس نے اپنے اس اختیار کو غلط طور پر استعمال کرتے ہوئے اللہ کا حکم تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا اور اس کے انکار کی وجہ اس کا تکبر اور فخر و غرور تھا اور وہ آدم کو اپنے آپ سے حقیر سمجھتا تھا جبکہ اصل حقیقت اس کے بالکل برعکس تھی۔ یہ قصہ پہلے کئی مقامات پر گزر چکا ہے اور یہاں اس لیے ذکر کیا جارہا ہے کہ سرداران قریش نے بھی تکبر اور استکبار کی روش اختیار کر رکھی تھی اور بیکس مسلمانوں کو اپنے سے حقیر تر سمجھتے تھے حالانکہ یہاں بھی حقیقت اس کے بالکل برعکس تھی۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سجدہ کا حکم تو فرشتوں کو دیا گیا تھا یہ ابلیس کی بات کہاں سے چل نکلی تو اس کا جواب دو طرح سے دیا جاتا ہے ایک یہ کہ ابلیس اپنی کثرت عبادت گزاری کی بنا پر فرشتوں کی صفوں میں داخل ہوگیا تھا۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ آدم کی پیدائش سے پہلے دو ہی عقل والی مخلوق پیدا کی گئی تھیں۔ ایک فرشتے دوسرے جن۔ اور فرشتے بہرحال جنوں سے افضل مخلوق تھے پھر جب افضل مخلوق کو سیدنا آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کا حکم ہوا تو یہی حکم از خود بالواسطہ مفضول مخلوق یا جنوں کے لیے بھی تھا۔ [٤٨] اعتقاداً یا زبانی طور پر تو کوئی بھی شیطان کو اپنا دوست یا مطاع یا سرپرست کہنے کو تیار نہیں ہوتا بلکہ سب اس پر لعنت ہی بھیجتے ہیں۔ مگر عملاً جب انسان اللہ کی بتائی ہوئی راہ کے علی الرغم دوسری راہیں اختیار کرتا اور اس کے حکم کی نافرمانی کرتا ہے تو یہ عملاً شیطان ہی کی پیروی ہوتی ہے کیونکہ نافرمانی اور سرکشی کی روش اسی نے اختیار کی تھی۔ [٤٩] یہاں ظالموں سے مراد شیطان یا ابلیس کے مطیع فرمان اور اس کے چیلے چانٹے ہیں اور اس جملہ کے دو مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ انسان کو چاہیے تو یہ تھا کہ اپنے پروردگار کی اطاعت کرتے مگر ان ظالموں نے ان کے عوض اپنے ازلی دشمن کی پیروی کی روش اختیار کی اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ ان ظالموں کو بہت برا بدلہ ملنے والا ہے۔