سورة الكهف - آیت 42

وَأُحِيطَ بِثَمَرِهِ فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلَىٰ مَا أَنفَقَ فِيهَا وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَىٰ عُرُوشِهَا وَيَقُولُ يَا لَيْتَنِي لَمْ أُشْرِكْ بِرَبِّي أَحَدًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور اس کا سارا پھل مارا گیا تو اس نے اس حال میں صبح کی کہ اپنی ہتھیلیاں ملتا تھا اس پر جو اس میں خرچ کیا تھا اور وہ اپنی چھتوں سمیت گرا ہوا تھا اور کہتا تھا اے کاش! میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٤٠] تکبر کی سزا :۔ چنانچہ موحد کے منہ سے نکلے ہوئے کلمات اللہ تعالیٰ کو اس قدر پسند آئے کہ اس کے منہ سے نکلی ہوئی بات فوراً مستجاب ہوگئی اور مشرک کو اس کے تکبر اور غرور کی سزا مل کے رہی۔ جن درختوں کے پھلوں اور اپنی پیداوار کو دیکھ کر وہ اتنا خوش ہو رہا تھا اور کفر کے کلمے بک رہا تھا۔ اس سارے کے سارے باغ پر قہر الٰہی نازل ہوا جس نے اسے زمین بوس کردیا اور صرف موجودہ تیار فصل کا ہی نقصان نہ ہوا بلکہ جو کچھ اس باغ پر خرچ کرچکا تھا سب کچھ ضائع اور برباد ہوگیا اس وقت وہ کف افسوس ملتے ہوئے کہنے لگا۔ کاش میں نے اپنے پروردگار کو حقیقی معنوں میں پروردگار اور نفع و نقصان کا مالک سمجھا ہوتا۔ اس کے کھڑے کھڑے اور آنکھوں سے دیکھتے اس کے باغ پر آفت نازل ہوئی تو اس وقت وہ کچھ بھی اس کا بچاؤ نہ کرسکا اور جب سب کچھ تباہ ہوگیا تب جاکر اسے یہ سمجھ آئی کہ حقیقتاً تو ہر چیز پر اختیار صرف اللہ ہی کو ہے۔ یہ تھی وہ مثال جو قریش مکہ کو سمجھانے کے لیے پیش کی گئی اور انھیں اس مثال میں تنبیہ یہ ہے کہ اگر ان کے پاس آج مال و دولت ہے، عزت ہے چودھراہٹ ہے تو وہ دوسروں کو حقیر مت سمجھیں کسی وقت بھی ان کے فخر و استکبار کی وجہ سے ان سے یہ نعمتیں چھن بھی سکتی ہیں جیسا کہ اگلی آیت میں بیان کردہ مثال سے بھی یہی کچھ واضح ہوتا ہے۔