سورة الكهف - آیت 24

إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّهُ ۚ وَاذْكُر رَّبَّكَ إِذَا نَسِيتَ وَقُلْ عَسَىٰ أَن يَهْدِيَنِ رَبِّي لِأَقْرَبَ مِنْ هَٰذَا رَشَدًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

مگر یہ کہ اللہ چاہے اور اپنے رب کو یاد کر جب تو بھول جائے اور کہہ امید ہے کہ میرا رب مجھے اس سے قریب تر بھلائی کی ہدایت دے گا۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٢٣] وعدہ کے وقت انشاء اللہ کہنے کی ہدایت :۔ ہوا یہ تھا کہ جب کفار مکہ نے آپ سے اصحاب کہف وغیرہ کے متعلق سوال کیا تو آپ نے انھیں جواب دیا کہ میں کل ان کا جواب دوں گا۔ آپ کا خیال یہ تھا کہ دریں اثناء شاید جبرئیل آئے تو ان سے پوچھ کر بتا دوں گا یا اللہ تعالیٰ از خود کل تک بذریعہ وحی مطلع کر دے مگر کل تک ان دونوں میں کوئی بات بھی نہ ہوئی پھر چند دن بعد جبرئیل وحی لے کر اس سورۃ کی آیات لے کر آئے اور ساتھ ہی آپ کے لیے یہ ہدایت بھی نازل ہوئی کہ کسی سے ایسا حتمی وعدہ نہ کیا کریں کہ میں کل تک یہ کام کردوں گا اور اگر وعدہ کرنا ہی ہو تو ساتھ الا ماشاء اللہ ضرور کہا کریں (یعنی اگر اللہ کو منظور ہوا تو فلاں وقت تک فلاں کام کروں گا) اور اگر کبھی آپ یہ بات کہنا بھول جائیں تو جس وقت یاد آئے اسی وقت کہہ لیا کریں۔ مطلب یہ ہے کہ ہر کام اللہ کی مشیئت کے تحت ہی ہوتا ہے لہٰذا اس بات کو ہر وقت ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔ یہ ہدایت اس لیے دی گئی تھی کہ کسی کو یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ وہ کل تک یا فلاں وقت تک فلاں کام کرسکے گا یا نہیں یا کسی کو غیب کا علم حاصل ہے اور نہ کوئی اپنے افعال میں خود مختار ہے کہ جو چاہے کرسکے لہٰذا کوئی شخص خواہ پورے صدق دل اور سچی نیت سے بھی کوئی وعدہ یا مستقبل کے متعلق بات کرے تو اسے انشاء اللہ ضرور کہہ لینا چاہیئے۔ ان شاء اللہ کو بطور ڈھال استعمال کرنا :۔ مگر افسوس ہے کہ بعض بدنیت قسم کے لوگوں نے اس کلمہ استثناء کو اپنی بدنیتی پر پردہ ڈالنے کے لیے ڈھال بنا رکھا ہے مثلاً ایک شخص اپنے سابقہ قرضہ کی ادائیگی یا نئے قرض کے لیے قرض خواہ سے ایک ماہ کا وعدہ کرتا ہے اور ساتھ ان شاء اللہ بھی کہہ دیتا ہے مگر اس کے دل میں یہ بات ہوتی ہے کہ اپنا کام تو چلائیں پھر جو ہوگا دیکھا جائے گا اور جب مدت مقررہ کے بعد قرض خواہ اپنے قرض کا مطالبہ کرتا ہے تو کہہ دیتا کہ اللہ کو منظور ہی نہ ہوا کہ میرے پاس اتنی رقم آئے کہ میں آپ کو ادا کرسکوں وغیرہ وغیرہ عذرپیش کردیتا ہے اور بدنیت لوگوں نے اس کلمہ استثناء کو اس قدر بدنام کردیا ہے کہ جب کوئی اپنے وعدہ کے ساتھ انشاء اللہ کہتا ہے تو سننے والا فوراً سمجھ جاتا ہے کہ اس کی نیت بخیر نہیں ہے یہ اللہ کی آیات سے بدترین قسم کا مذاق ہے جس کا ایک ایمان دار آدمی تصور بھی نہیں کرسکتا۔ [٢٤] اس جملہ کے کئی مطلب ہوسکتے ہیں مثلاً ایک یہ کہ آئندہ کوئی موقع ہی ایسا نہ آئے کہ میں ان شاء اللہ یا ماشاء اللہ کہنا بھول جاؤں دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ اصحاب کہف سے بھی زیادہ حیران کن طریقہ سے میری مدد فرمائے جیسا کہ غار ثور کے قصہ میں ہوا۔ تیسرا یہ کہ جس کام کے کرنے کو آپ کہہ رہے ہیں آپ کو یہ علم نہیں کہ یہی کام بہتر ہے یا کوئی دوسرا کام اس سے بہتر ہے لہٰذا اللہ پر توکل کرتے ہوئے یوں کہا کرو کہ میرا رب اس معاملہ میں صحیح بات یا صحیح طرز عمل کی طرف میری رہنمائی فرما دے گا۔