وَإِذِ اعْتَزَلْتُمُوهُمْ وَمَا يَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ فَأْوُوا إِلَى الْكَهْفِ يَنشُرْ لَكُمْ رَبُّكُم مِّن رَّحْمَتِهِ وَيُهَيِّئْ لَكُم مِّنْ أَمْرِكُم مِّرْفَقًا
اور جب تم ان سے الگ ہوچکے اور ان چیزوں سے بھی جن کی وہ اللہ کے سوا عبادت کرتے ہیں تو کسی غار کی طرف (جاکر) پناہ لے لو، تمھارا رب تمھارے لیے اپنی کچھ رحمت کھول دے گا اور تمھارے لیے تمھارے کام میں کوئی سہولت مہیا کر دے گا۔
[١٣] ڈائنا دیوی کے مندر کی شہرت اور شرکیہ رسوم ورواج :۔ جس زمانے میں ان توحید پرست نوجوانوں نے غار میں پناہ لی تھی اس وقت شہر افسُسْ جس کے یہ لوگ باشندے تھے، ایشیائے کوچک میں بت پرستی اور جادوگری کا سب سے بڑا مرکز تھا وہاں ڈائنا دیوی کا ایک عظیم الشان مندر تھا جس کی شہرت تمام دنیا میں پھیلی ہوئی تھی اور دور دور سے لوگ اس کی پوجا پاٹ کے لیے آتے تھے۔ وہاں کے جادوگر، عامل، فال گیر اور تعویذ لکھنے والے دنیا بھر میں مشہور تھے۔ شام و فلسطین اور مصر تک ان کا کاروبار چلتا تھا اور اس کاروبار میں یہودیوں کا بھی خاصا حصہ تھا جو اپنے فن کو سیدنا سلیمان علیہ السلام کی طرف منسوب کرتے تھے شرک اور اوہام پرستی کے اس ماحول میں توحید پرستوں کا جو حال ہو رہا تھا اس کا اندازہ اس فقرے سے کیا جاسکتا ہے جو اگلے رکوع میں آرہا ہے کہ اگر انھیں ہم پر اختیار مل گیا تو وہ لوگ یا تو ہمیں سنگسار کر ڈالیں گے یا پھر ہمیں اسی بت پرستی اور شرک والے مذہب میں واپس چلے جانے پر مجبور کردیں گے۔ [١٤] چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور انھیں اپنے دامن رحمت میں لے کر صدیوں تک ان پر نیند طاری کردی اور جب جاگے تو یہ توحید اور توحید پرستوں کا دشمن بادشاہ دقیانوس مرکھپ چکا تھا اور جو موجودہ بادشاہ تھا اس نے عیسائیت کا مذہب قبول کرلیا تھا اس بادشاہ کا نام قیصر تھیوڈوسیس (Theodosius) ثانی بتایا جاتا ہے۔ اس کے دور میں پوری رومی سلطنت نے عیسائیت کا مذہب قبول کرلیا تھا لہٰذا اب توحید پرستوں پر کوئی ایسی سختی نہ رہی تھی جو دقیانوس کے زمانہ میں تھی۔