قُلِ ادْعُوا اللَّهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَٰنَ ۖ أَيًّا مَّا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ ۚ وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذَٰلِكَ سَبِيلًا
کہہ دے اللہ کو پکارو، یا رحمان کو پکارو، تم جس کو بھی پکارو گے سو یہ بہترین نام اسی کے ہیں اور اپنی نماز نہ بلند آواز سے پڑھ اور نہ اسے پست کر اور اس کے درمیان کوئی راستہ اختیار کر۔
[١٢٨] رحمان اللہ کا ذاتی نام ہے قریش کی رحمن سے چڑ 'اللہ کے دوسرے صفاتی نام :۔ اللہ کے بعد رحمان بھی اللہ تعالیٰ کا دوسرے نمبر پر ذاتی نام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی مخلوق کا جس طرح اللہ نام یا اس کی صفت نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح رحمان بھی کسی مخلوق کا نام یا صفت نہیں ہوتی لیکن اللہ کا یہ نام عرب میں رائج نہ تھا اور اس نام سے انھیں چڑ بھی تھی اور وہ اللہ پر اس نام کا اطلاق کرنے سے بدکتے تھے اور جب آپ کی زبان سے یہ نام سنتے تو کہتے کہ ہمیں تو اللہ کا شریک بنانے سے منع کرتے ہو۔ جبکہ تم نے خود بھی اللہ کے ساتھ رحمان کو بھی الٰہ بنا رکھا ہے۔ ان کے اسی اعتراض کا اس آیت میں جواب دیا گیا ہے کہ اللہ اور رحمن دوالٰہ نہیں بلکہ ایک ہی ذات کے دو نام ہیں۔ تم جونسا چاہو پکار سکتے ہو.۔ بلکہ اللہ کے تو اور بھی بہت سے اچھے صفاتی نام ہیں۔ تم ان سے اللہ کو پکار سکتے ہو اور صحیح احادیث کی رو سے یہ نام ننانوے ہیں۔ اور جو ننانوے نام حدیث میں مذکور ہیں۔ استقصاء سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے علاوہ اور بھی کئی نام ہیں جو کتاب و سنت میں مذکور ہیں۔ (نیز دیکھئے سورۃ رعد آیت نمبر ٣٠ کا حاشیہ) [١٢٩] قرآن کی تلاوت آہستہ جہری آواز سے :۔ اس جملہ کی تفسیر کے لئے درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے : سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :یہ آیت اس وقت اتری جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں کافروں سے چھپے رہتے جب آپ صحابہ کو نماز پڑھاتے تو بلند آواز سے قرآن پڑھتے۔ جب مشرک قرآن سنتے تو قرآن، صاحب قرآن اور قرآن لانے والے (جبرئیل) سب کو برا بھلا کہتے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ نماز میں قرآن بلند آواز سے نہ پڑھئے کہ مشرک قرآن کو برا بھلا کہیں اور نہ اتنی آہستہ پڑھئے کہ آپ کے صحابہ بھی نہ سن سکیں بلکہ درمیانی راہ اختیار کیجئے۔ (بخاری، کتاب التفسیر، ترمذی، ابو اب التفسیر) اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ یہ آیت دعا کے باب میں اتری۔ (حوالہ ایضاً)