وَيَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ يَبْكُونَ وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعًا ۩
اور وہ ٹھوڑیوں کے بل گر جاتے ہیں، روتے ہیں اور وہ (قرآن) انھیں عاجزی میں زیادہ کردیتا ہے۔
[١٢٧] اہل کتاب میں بھی کچھ منصف مزاج اور اہل علم موجود تھے جن میں بعض ایمان بھی لے آئے قرآن نے ان کا ذکر خیر کئی مقامات پر کیا ہے مثلاً سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ١١٣ تا ١١٥ میں اور ١٩٩ میں نیز سورۃ مائدہ کی آیت نمبر ٨٢ تا ٨٥ میں۔ علاوہ ازیں مشرکین میں بھی معدودے چند ایسے افراد بعثت نبوی کے دور میں تھے جو شرک سے سخت بیزار تھے۔ علاوہ ازیں شراب اور دوسری معاشرتی برائیوں سے بھی متنفر رہتے تھے اور انبیاء سابقین کی خبروں کی وجہ سے نبی آخرالزمان کے منتظر تھے۔ مثلاً زید بن عمرو بن نفیل، ورقہ بن نوفل، سیدنا ابو بکر صدیق ، سلمان فارسی اور ابو ذرغفاری وغیرہ ایسے ہی لوگوں میں سے تھے۔ ایسے منصف مزاج لوگوں کی خواہ وہ دور جاہلیت کے مشرکانہ معاشرہ سے تعلق رکھتے ہوں یا اہل کتاب سے۔ جب ان کے سامنے قرآن کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو اس کی اثر پذیری کی وجہ سے روتے روتے سجدہ میں گر پڑتے ہیں۔ قرآن کی ایک ایک آیت ان کے ایمان میں اضافہ، پختگی اور اللہ کے حضور خشوع کا سبب بن جاتی ہے ایسے ہی لوگوں کی مطابقت میں علماء نے اس آیت پر سجدہ واجب قرار دیا ہے۔