وَلَئِن شِئْنَا لَنَذْهَبَنَّ بِالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ بِهِ عَلَيْنَا وَكِيلًا
اور یقیناً اگر ہم چاہیں تو ضرور ہی وہ وحی (واپس) لے جائیں جو ہم نے تیری طرف بھیجی ہے، پھر تو اپنے لیے اس کے متعلق ہمارے مقابلے میں کوئی حمایتی نہیں پائے گا۔
[١٠٧] وحی کے بتدریج نزول میں آپ پر اللہ کا بڑا فضل ہے : اس آیت کا تعلق دراصل سابقہ مضمون سے ہے جو کفار مکہ نے سمجھوتہ کی ایک شکل یہ پیش کی تھی کہ اگر آپ ان آیات کی تلاوت چھوڑ دیں جن میں ہمارے معبودوں کی توہین ہوتی ہے تو ہم آپ کے مطیع بن جائیں گے۔ اس آیت میں دراصل وحی الٰہی کی اہمیت مذکور ہوئی ہے کہ اس وحی الٰہی کی ہی تو برکت ہے کہ دن بدن دعوت اسلام پھیلتی جارہی ہے اور اس وحی کے ذریعہ آپ کو اور صحابہ کو صبر اور ثابت قدمی میسر آرہی ہے۔ اگر ہم اس نازل کردہ وحی میں سے کچھ حصہ آپ کو بھلا دیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی مدد اور نصرت جو پہنچ رہی ہے وہ منقطع ہوسکتی ہے اور اندریں صورت تمہیں سنبھالا دینے والی کوئی طاقت نہ ہوگی۔ یہ تو آپ پر اللہ کی بہت مہربانی ہے کہ آپ پر وحی اس انداز اور اس تدریج کے ساتھ حالات کے مطابق نازل ہو رہی ہے جس سے اسلام کی سربلندی کے لیے اسباب از خود پیدا ہوتے چلے جارہے ہیں۔ (تفصیل کے لیے سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ٢٣ پر حاشیہ نمبر ٢٧ ملاحظہ فرمائیے)