وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ ۖ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا
اور وہ تجھ سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دے روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تمھیں علم میں سے بہت تھوڑے کے سوا نہیں دیا گیا۔
[١٠٦] روح سے مراد وحی الہی ہے :۔ اس آیت کے شان نزول کے متعلق درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمایئے : سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک کھیت میں جارہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کی ایک چھڑی پر ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ اتنے میں چند یہودی سامنے سے گزرے اور آپس میں کہنے لگے 'اس پیغمبر سے پوچھو کہ روح کیا چیز ہے' کسی نے کہا، کیوں ایسی کیا ضرورت ہے؟ اور کسی نے کہا، ممکن ہے وہ تمہیں کوئی ایسی بات کہہ دے جو تمہیں ناگوار گزرے۔ آخر یہ یہی طے ہوا کہ پوچھو تو سہی۔ چنانچہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، روح کیا چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (تھوڑی دیر) خاموش رہے اور انھیں کچھ جواب نہ دیا۔ میں سمجھ گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی آنے لگی ہے اور اپنی جگہ کھڑا رہا۔ جب وحی ختم ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی۔ ﴿وَیَسْئَلُوْنَکَ۔۔ قلیلا تک (بخاری، کتاب التفسیر۔ نیز کتاب العلم۔ باب وما اوتیتم من العلم الاقلیلا) اور ترمذی کی روایت میں یہ الفاظ زیادہ ہیں 'یہود یہ کہتے تھے کہ ہمیں بہت علم دیا گیا ہے۔ ہمیں تورات دی گئی اور جسے تورات مل گئی تو اسے بہت بھلائی مل گئی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی﴿قُلْ لَوْ کَانَ الْبَحْرُ﴾ تا آخر (سورہ کہف کی آیت نمبر ١٠٩) (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سورۃ تو مکی ہے اور یہود مدینہ میں رہتے تھے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ بعض مکی سورتوں میں متعدد آیات مدنی بھی موجود ہیں جنہیں مضمون کی مناسبت کے لحاظ سے مکی سورتوں میں مناسب مقام پر رکھا گیا ہے اور ہر سورت کے درمیان آیات کی ترتیب بھی توقیفی ہے یعنی یہ ترتیب بھی وحی الٰہی کے مطابق ہے نیز بعض کتب سیر کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سوال دراصل قریش مکہ نے یہود کے کہنے پر کیا تھا مگر بخاری کی روایت کے واضح الفاظ اس کی تائید نہیں کرتے۔ وہی توجیہ درست ہے جو اوپر ذکر کی گئی ہے۔ روح اور نفس کا فرق :۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ روح سے مراد کیا ہے؟ قرآن کریم نے متعدد مقامات پر روح کو 'وحی الٰہی' کے معنوں میں استعمال فرمایا ہے۔ بالخصوص اس صورت میں کہ روح کے ساتھ امر کا لفظ بھی موجود ہے جیسے یہاں موجود ہے۔ یا مثلاً فرمایا : ﴿ یُنَزِّلُ الْمَلٰئِکَۃَ بالرُوْحِ مِنْ اَمْرِہِ عَلٰی مَنْ یَّشَاءُ مِنْ عِبَادِہٖ﴾ (١٦: ٢) نیز فرمایا : ﴿یُلْقِیْ الرُّوْحَ مِنْ اَمْرِہٖ عَلٰی مَنْ یَّشَاءُ مِنْ عِبَادِہِ﴾(٤٠: ١٥) نیز فرمایا : ﴿وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ رُوْحًا مِنْ اَمْرِنَا﴾ (٤٢ : ٥٢) لہٰذا یہاں بھی روح سے مراد وحی الٰہی ہی ہے یا وحی لانے والا فرشتہ اور اس فرشتہ یعنی جبریل کو روح الامین بھی کہا گیا ہے۔ اور سیاق و سباق سے بھی اسی معنی کی تائید ہوتی ہے اس آیت سے پہلے کی آیت میں بھی وحی الٰہی کا ذکر ہے اور بعد والی آیت میں بھی بالفاظ دیگر یہود کا دراصل سوال یہ تھا کہ وحی الٰہی کی کیفیت کیا ہے اور حصول قرآن کا اصل ماخذ کیا ہے اور وحی لانے والے کی ماہیت کیا ہے؟ اس سوال کا جواب انھیں یہ دیا گیا کہ تمہیں جو علم دیا گیا ہے وہ اتنا قلیل ہے کہ ان حقائق کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ بعض علماء نے یہاں روح سے مراد 'جان' لی ہے۔ جو ہر جاندار کے جسم میں موجود ہوتی ہے اور جب تک وہ جسم میں موجود رہے جاندار زندہ ہوتا ہے اور اس کے نکلنے سے مر جاتا ہے۔ اس مراد سے انکار بھی مشکل ہے۔ کیونکہ انسان خواہ کتنے فلسفے بکھیرے اس روح کی حقیقت کو بھی جاننے سے قاصر ہی رہا ہے۔ علاوہ ازیں جس طرح انسان کی اخلاقی اور روحانی زندگی کا دار و مدار وحی الٰہی پر ہے اسی طرح جسمانی زندگی کا دار و مدار روح پر ہے تاہم ربط مضمون کے لحاظ سے پہلی توجیہ ہی بہتر ہے کیونکہ اس کی تائید بہت سی دوسری آیات سے بھی ہوجاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت کے وقت فرشتے جو روح نکالنے آتے ہیں۔ اس کے لیے قرآن نے روح کی بجائے نفس کا لفظ استعمال کیا ہے جیسے فرمایا اخرجوا انفسکم (٦: ٩٣) اور بعض یہ کہتے ہیں کہ روح پر لفظ نفس کا اطلاق اس وقت ہوتا ہے جب وہ بدن میں موجود ہو اور جب نکل جائے تو اسے روح کہتے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔